"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات بل اور آئینی تقاضے

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک مبینہ آڈیو جس کے بارے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا پیغام سابق صدر آصف زرداری تک پہنچانے کیلئے یہ کال کی گئی تھی‘ کی حقیقت جانچنے کے لیے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو اس آڈیو کا فرانزک تجزیہ کرانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ مبینہ طور پر یہ آڈیو تحریک عدم اعتماد سے کچھ روز پہلے کی تھی۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں کی جانب سے کہا جارہا تھا کہ پارٹی کی کور کمیٹی میں بھی اس آڈیو کے بارے میں سوالات اُٹھائے گئے۔ چونکہ عمران خان کے اردگرد کئی نا تجربہ کار لوگ موجود ہیں‘ تو انہوں نے مذکورہ آڈیو کے بارے خاموشی اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہو گا‘ مگر یہ ان کی سیاست کے لیے زہر خطر ناک ثابت ہوسکتی ہے۔ مذکورہ آڈیو کا اگر عقل سلیم سے جائزہ لیا جائے تو سامنے آتا ہے کہ آصف علی زرداری سے بات چیت سلام دعا یا حال احوال دریافت کیے بغیرشروع ہوئی جبکہ اخلاقی طور پر ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا۔ آصف علی زرداری پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمین بھی ہیں‘ ان سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے اعلیٰ منصب کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے مذکورہ ٹیلیفونک گفتگو کی تردید کی ہے۔ انہوں نے اس آڈیوکو سچ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عمران خان کسی ٹائیکون سے آصف زرداری سے مفاہمت کرانے کی گزارش کریں‘ بے بنیاد‘ ایڈٹ شدہ آڈیو تسلیم نہیں کرتے۔ بہرحال یہ نازک اور حساس دورہے‘ عوام کی بھاری اکثریت اس صورتحال میں گو مگو کا شکار ہے‘ جس سے تحریک انصاف کے بیانیے اور سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
سیاسی تپش اپنی جگہ مگر بڑھتے ہوئے معاشی مسائل اس وقت سب سے زیادہ توجہ کے حق دار ہیں۔ پٹرولیم‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جو بے بہا اضافہ ہو چکا ہے عوام کے صبر کا امتحان ہے۔ عوام کی برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔کہتے ہیں کہ آخری تنکا اونٹ کی کمر توڑتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ایسے فیصلے نہ کیے جائیں جو عوام کو مزید مشکلات میں ڈالیں بلکہ مشکلات کا سارا بوجھ حکمران اور مراعات یافتہ طبقات پر ڈالتے ہوئے ان سے مراعات عبوری طور پر واپس لی جائیں۔
ان حالات میں عمران خان اپنی خود ساختہ اسلام آباد بدری سے واپس آکر اپنے ان تمام اراکین ِقومی اسمبلی کے استعفے واپس لینے کا عندیہ دے کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا فعال کردار ادا کرسکتے ہیں‘ کیونکہ ان کی غیرموجودگی میں جو قانون سازی ہو رہی ہے وہ اس جمہوری دور میں یک طرفہ ہی قرار دی جائے گی۔ حکومت کو اپنی مصنوعی اکثریت کا احساس ہے‘ لہٰذا اس کی آڑ میں جو قانون سازی کی جا رہی ہے وہ حکومتی پارٹیوں کے مفادات کے زمرے میں آتی ہے‘ ریاست اور عوام سے اس کا کوئی تعلق نہیں‘ لیکن اس کے مضمرات سے عمران خان بھی نہیں بچ سکیں گے۔ انہوں نے بلاوجہ اپنی جماعت کے 123اراکینِ قومی اسمبلی سے ان کی خواہش کے برعکس استعفے لے کر اتحادی حکومت کو بلاوجہ فائدہ پہنچایا۔ اب بااثر‘ فعال اور مضبوط اپوزیشن کی غیر موجودگی میں جو انتخابی اصلاحات کا بِل لایا گیا ہے اس کے مندرجات وہی ہیں جو عمران خان لانا چاہتے تھے۔ عمران خان کی حکومت نے 48کے لگ بھگ انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جسے اُس وقت کی اپوزیشن نے مسترد کر دیا تھا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103اور 94میں ترامیم کے علاوہ دیگر اہم انتخابی اصلاحات کو پیش کرنے کی حکمران جماعت ہمت نہ کر سکی تھی۔ لیکن موجودہ حکومت انہی ترامیم میں معمولی سی تبدیلی کرکے انتخابی اصلاحات کے نام پر وہ بل منظور کرا چکی ہے‘ وہی تجاویز ہیں جو عمران حکومت نے انتخابی اصلاحات کے بل میں پیش کی تھیں۔ چند مثالیں میں پیش کر رہا ہوں: خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے عمران خان صاحب کی حکومت نے تجویز پیش کی تھی کہ خواتین اور منارٹی کی مخصوص پارٹی لسٹ الیکشن سے پہلے پیش کرنے کے بجائے الیکشن میں کامیابی کے بعد سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر خواتین اور منارٹی اراکین کی فہرست پیش کریں گی‘ جو آئین کے آرٹیکل 224 سے سراسر منافی ہے اور اب چونکہ حکومت اور ''اپوزیشن‘‘ ایک صفحہ پر ہے‘ لہٰذا آئین میں ترمیم کرنا مشکل معلوم نہیں ہوتا۔
اب خواتین اور منارٹی لسٹ الیکشن میں کامیابی کے بعد پیش کی جاتی ہیں تو ہر نشست کروڑوں روپے میں نیلام ہوگی اور کرپشن کا دروازہ کھل جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس شق کی شدید مخالفت کی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ اب حکمران جماعت نے اپنی پسندیدہ شق کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ صدر مملکت کے اختیارات تو ہیں کہ وہ من و عن اس بل پر منظوری کے دستخط کر دیں لیکن ان دنوں صدر مملکت آئین و قانون کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد رضامندی کے دستخط کرتے ہیں؛ چنانچہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 75کی شق ایک بی کے تحت الیکشن ترمیمی بل 2022نظر ثانی کے لیے وزیراعظم کو واپس بھیج دیا ہے۔
اس طرح دیگر ایسے تمام بل جو سابقہ حکومت منظور کروانا چاہتی تھی‘ جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا تھا اور حکومت بھی اپوزیشن‘ میڈیا‘ سول سوسائٹی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دباؤ میں تھی‘ مگر اب حکومت کے لیے ان کی منظوری کے لیے بھی میدان صاف ہو چکا ہے۔ انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرانے کی تجویز بھی سابقہ حکومت نے دی تھی اس پر بھی معلوم کرنا ہوگا کہ موجودہ حکومت نے حکمت سے اس بل کو بھی منظور کر لیا ہوگا جو آئین کے آرٹیکل 51کے خلاف ہے۔ اُس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 14کے لگ بھگ ایسی شقوں کو خلافِ آئین قرار دیا تھا۔ ایسے تمام بلز جو متنازع رہے ہیں‘ موجودہ حکومت کو منظوری کے مرحلے میں قوم کے سامنے لانے چاہئیں تاکہ پارلیمنٹ کی راہداری سے ہٹ کر عوام کے حلقوں میں بھی ان پر بحث کی جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اسی جرأت سے آگے بڑھنا ہوگا جس انداز میں اس نے سابق حکومت کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
آخر میں عمران خان صاحب سے استدعا ہے کہ اپنی اَنا‘ خود پسندی اور نفسیاتی الجھنوں سے نکل کر عوام کے مفاد میں اور ریاست کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ میں واپس آ جائیں اور لیڈر آف اپوزیشن کا اعلیٰ منصب سنبھال کر ایسی قانون سازی کے خلاف آواز اٹھائیں جو آئین سے انحراف کے زمرے میں آتی ہے۔ عمران خان سٹریٹ پاور‘ جلسے اور لانگ مارچ کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرکے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی قیادت سنبھال کر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمینی بھی اپنے ہاتھ میں لے کر آئندہ کے انتخابات کے لیے حکومت کو پارلیمنٹ میں جواب دہ بنائیں۔ اگر عمران خان اپنی سابقہ روایات پر ہی قائم رہے تو آئندہ انتخاب اکتوبر 2023ء میں ہی ہوں گے اور ممکن ہے کہ آئین کے آرٹیکل 232کے تحت اس میں توسیع بھی کر دی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں