"KDC" (space) message & send to 7575

بجٹ اور حکومتی بیانیہ

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اپنی بجٹ تقریر اور بعد از بجٹ پریس کانفرنس اور سیمینار سے خطاب کے دوران لفظوں کے مناسب چناؤ میں ناکام نظرآتے ہیں۔اگلے روز بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ صاحب نے جو کچھ کہا‘ اس پہ حیرت ہوتی ہے‘ مثلاً یہ کہ ''فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز جون میں لگیں گے تو ایسا بل آئے گا کہ اللہ معاف کرے‘‘۔''اگر جولائی تک پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی ختم نہ کی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا‘‘۔''انتظامی امور ٹھیک کرنا ضروری ورنہ ملک چلانا مشکل‘‘۔ ''پٹرول مہنگا کر کے پیسے گھر نہیں لے جا رہے اور لوڈ شیڈنگ زیرو نہیں کر سکتے‘‘۔ گفتگو کا یہ انداز کسی طرح بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ قوم کو یہ باور کرانا کہ بجٹ پر آئی ایم ایف ناخوش ہے‘ اس کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ پاکستان آئی ایم ایف کی براہ راست غلامی میں آ کر اپنی خود مختاری سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور پاکستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر آئی ایم ایف مسلط کر دی گئی ہے۔ ایسے ذومعنی الفاظ کا استعمال غیر مناسب اور وزیر خزانہ کے شایانِ شان نہیں۔ وزیر خزانہ کے منصب کا تقاضا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں‘ وہ لوگوں میں امنگ برقرار رکھیں‘ حوصلے بڑھائیں‘ مشکلات کا احساس بھی دلاتے رہیں مگر مورال ڈاؤن نہ ہونے دیں؛چنانچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ وزارت خزانہ کا لب و لہجہ سفارتی لب و لہجے کی طرح ہونا چاہیے۔ وزیر خزانہ کو زیب نہیں دیتا کہ پاکستان کے سری لنکا بننے کے اشارے دیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور سال میں پانچ فصلیں پیدا کرتا ہے۔یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کبھی بھی سری لنکا نہیں بن سکتا اور نہ ہی ملک دیوالیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ادائیگی کے دباؤ اور مشکلات ضرور ہیں مگر جس ملک کی شرح نمو چھ فیصد کے قریب ہو اس کی معیشت کے مفلوج ہونے کی گھنٹیاں بجانا باعثِ حیرت ہے۔ وزیر خزانہ کی ان تقاریر اور پریس بریفنگز سے ملک میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے جس کے نتائج ہمیں آئے روز ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافے اور سٹاک ایکسچینج کی تیزترین گراوٹ کی صورت میں بھی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ اس نے مناسب بجٹ پیش کیا ہے‘ دوسری طرف مایوسی پھیلائی جا رہی ہے کہ ملک سری لنکا بن جائے گا۔ وزیر خزانہ ہی اگر معیشت کے بارے اس قدر مایوسی پھیلائیں گے تو ملک میں سرمایہ کاری کیسے آ سکتی ہے ؟ یہ باتیں سننے کے بعد تو جو سرمایہ کار یہاں ٹکے ہوئے ہیں‘ وہ بھی بھاگنے کو ترجیح دیں گے۔ وزیر خزانہ کو اپنے لب و لہجے پر غور کرنا چاہیے۔ منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کمان سے چھوڑے گئے تیر کی طرح ہوتے ہیں‘ جو واپس نہیں آ سکتے۔ اگر کوئی اپنے الفاظ واپس لینے کا کہے تب بھی ان سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں‘ اس لیے حکومتی عہدیداروں کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اہم ترین عہدے ہیں اور ملک کی تقدیر کے فیصلے ان کے الفاظ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔
حسبِ سابق موجودہ وزیر خزانہ نے بھی اپنی بجٹ تقریر کو گزشتہ حکومت کی خامیوں کے ذکر سے بھر دیا۔وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ گزشتہ پونے چار سال کے دوران ہر سال معاشی پالیسی بدلی جاتی رہی جس سے سرمایہ کاروں اور عالمی اداروں کو ٹھیس پہنچی۔ آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہوگیا اور وہ بنیادی اصلاحات جو 2019ء میں ہونی تھیں‘ اب تک نہیں ہو سکیں۔ اسی طرز کی تقاریر تمام وزرائے خزانہ کرتے آئے ہیں کہ اپنی کارکردگی کا ذکر کرنے کے بجائے سارا ملبہ سابق حکومتوں پر ڈال دیا۔ وزارتوں کے ماہرین کے ہاں تقاریر کے مسودے تیار پڑے ہوتے ہیں اور محل وقوع کے مطابق ماضی کی حکومت کی ناکامیوں پر تقاریر کی جاتی ہیں‘ یہی سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔اگر صورتحال یہی ہے توپھر ناکام پالیسی بنانے والوں کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟ حکومتیں تو تبدیل ہوتی رہتی ہے مگرپالیسی بنانے والے تو مستقلاً اپنے عہدوں پر براجمان رہتے ہیں۔ جن بیوروکریٹس نے ناکام پالیسیاں بنانے میں کردار ادا کیا ہوتا ہے‘ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ بجٹ تقریر کے بعد تجزیے ہوتے رہے لیکن بنیادی حقائق پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایک اہم سوال یہ تھا کہ پاناما‘ پنڈورا لیکس اور سوئس اکاؤنٹس جیسے سکینڈلز میں تقریباً دو ہزار پاکستانی شہریوں کے راز افشا ہوئے جنہوں نے چار‘ پانچ سو ارب ڈالر بیرونِ ملک چھپا رکھا ہے۔ ان رقوم کی واپسی کی کوئی بات اب تک کیوں نہیں ہوئی جبکہ ان کا دسواں حصہ بھی قومی خزانے میں واپس لایا جائے تو ملک معاشی بحران سے بہ آسانی نجات پا سکتا ہے۔
دوسری جانب سیاسی محاذوں پر سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔عمران خان اپنی پارٹی اور سپورٹرز کو متحرک رکھنے کے لیے آئے دن لانگ مارچ ٹو شروع کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اسلام آباد کا رُخ کرنے کے لیے گرم جوش تقاریر بھی کر رہے ہیںلیکن اپنے اسی لانگ مارچ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی فیصلے سے بھی مشروط کر رہے ہیں۔ جیسا کہ زمینی حقائق بتا رہے ہیں‘ سپریم کورٹ میں سکیورٹی کے اداروں نے رپورٹ جمع کرا دی ہے جس کے مطابق عمران خان نے مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی ہدایت دی تھی۔ حساس اداروں کی رپورٹ کی روشنی ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کرنا ہے۔ اب عمران خان کیسے توقع کر رہے ہیں کہ انہیں غیر مشروط طور پر اسلام آباد پر یلغار کرنے کی اجازت دے دی جائے گی؟ مستقل قریب میں یعنی 17 جولائی کو 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور عمران خان نے ان حلقوں میں انتخابی مہم بھی شروع کرنی ہے‘ لہٰذا اب اگست سے پہلے عمران خان کا اسلام آباد کی طرف رُخ کرنا مشکل نظر آتا ہے‘ لہٰذا یہی سمجھیں کہ لانگ مارچ اپنے منطقی نتیجہ پر پہنچ چکا ہے۔ تحریک انصاف اگر 20 نشستوں پر نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ اگر حکمران اتحاد ان بیس نشستوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر تحریک انصاف ہر قسم کی احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی حالیہ دنوں پیش رفت ہوئی ہے اورابتدائی حلقہ بندیوں کی رپورٹ مع فہرست فارم 5 عوام الناس کی آگاہی کے لیے شائع کر دیا گیا ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ حلقہ بندیوں کی اشاعت یکم جون سے 30 جون تک جاری رہے گی۔ ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات متعلقہ حلقہ کا ووٹر کر سکتا ہے۔ 30 جون تک حلقہ بندیوں کے بارے میں اعتراضات جمع کرائے جا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن فریقین کا مؤقف سننے کے بعد یکم جولائی سے 30 جولائی تک ان اعتراضات پر فیصلے کرے گا۔ اعتراضات جمع کروانے کے لیے ضروری ہے کہ اعتراضات جمع کروانے والا متعلقہ حلقے کا ووٹر ہواور اہم وضاحت یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے خلاف اعتراضات الیکشن رولز 2017ء کے رول 12 کے تحت ذاتی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرانا ہوں گے۔ توقع ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان20 اگست تک حلقہ بندیوں کی حتمی رپورٹ شائع کر دے گا اور اس کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی وقت بھی انتخابات کروانے کے لیے تیار ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں