"KDC" (space) message & send to 7575

ممنوعہ فنڈنگ کیس کے مضمرات

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آٹھ سال بعد تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ امید کی جاتی ہے کہ اس اہم نوعیت کے کیس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد جامع اور حقائق کے عین مطابق فیصلہ مرتب کیا گیا ہو گا۔ اس کیس کے طویل دورانیے میں سامنے آنے والے حقائق کو دیکھا جائے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف نے غیرملکی فنڈنگ چھپانے کے لیے مختلف راستے اختیار کیے اورغلط مفروضے کی بنیاد پر یہ تاثرات عام کئے کہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر تحریک انصاف پر بطور سیاسی پارٹی پابندی لگا دی جائے گی‘جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کی رو سے ممنوعہ فنڈنگ بحقِ سرکار ضبط کر لی جائے گی اور اس کے مضمرات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو دفعہ 215کے تحت کرنا ہوگا جس کے تحت پارٹی کا انتخابی نشان واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ بھی فیصلہ کرنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ پر سیاسی جماعت اور پارٹی کے چیئرمین پر کیا اثر ہوگا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید قرار دیا کہ غیرملکی فنڈنگ ثابت ہو جائے تو مزید سنگین نتائج ہو سکتے ہیں جبکہ اس کیس میں امریکی شہریت کے حامل عارف نقوی کی اہم دستاویزات بھی بغیر حلف نامہ کے موجود ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قوانین کے مطابق کوئی پاکستانی کمپنی کسی سیاسی جماعت کی فنڈنگ نہیں کر سکتی جبکہ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق غیرملکی اکاؤنٹس سے تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں رقوم آئی ہیں‘ جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ساڑھے تین سو کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور تحریک انصاف نے غیرملکی کمپنیوں کی فنڈنگ کو تسلیم بھی کیا ہے۔دراصل اس ممنوعہ فنڈنگ کیس کا سارا دارومدار سٹیٹ بینک کی رپورٹ پر ہے جس میں گیارہ ایسے اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جن میں تقریباً 86 کروڑ روپے سے زائد رقوم کی نشاندہی ہوئی ہے۔ جب سٹیٹ بینک نے غیرملکی فنڈنگ کی نشاندہی کی تو تحریک انصاف نے ان گیارہ اکاؤنٹس ہولڈرز سے لاتعلقی کا بیانیہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کروا دیا۔اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان افراد کے خلاف حقائق چھپانے کے جرم میں علیحدہ فوجداری مقدمہ کا اندراج کرنا ہوگا اور حقائق چھپانے کے جرم میں ان افراد کو تاحیات نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف نے بین السطور میں سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ فارن فنڈنگ نہیں ہے‘ محض ممنوعہ فنڈنگ کی بات ہو رہی ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کے وہ اثرات نہیں ہوتے جو فارن فنڈنگ کے ہوتے ہیں۔ انور منصور ایڈووکیٹ جو تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کا دفاع کر رہے تھے کا موقف یہ رہا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ ممنوعہ رقوم سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کروا دی جائیں جبکہ حیرت کی بات ہے کہ برطانوی جیل میں قید عارف نقوی نے بیان دیا ہے کہ فنڈز ان کے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ہیں۔ سکروٹنی کمیٹی نے عارف نقوی کی دستاویزات کی بھی جانچ پڑتال کی ہے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کو سب سے بڑی غیرملکی فنڈنگ بوٹون کرکٹ نامی کمپنی نے کی ہے جس کے مالک امریکی شہریت کے حامل عارف نقوی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سکروٹنی رپورٹ کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ عارف نقوی کی کمپنی نے تحریک انصاف کو الیکشن 2013ء سے پہلے 21 لاکھ ڈالرز کی فنڈنگ کی تھی۔ یہ فنڈنگ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں تحریک انصاف کو ملنے والی تمام غیرملکی فنڈنگ میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستانی قوانین کے مطابق کسی بھی غیرملکی کمپنی سے فنڈنگ لینا ممنوع ہے اس سلسلے میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204واضح ہے جبکہ تحریک انصاف نے اپنے دفاع میں عارف نقوی کا بیان الیکشن کمیشن میں جمع کروایا تھا جس میں عارف نقوی نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے تحریک انصاف کی سیاسی مہم کے لیے بیس لاکھ ڈالر سے زائد رقوم اکٹھی کی تھیں۔ عارف نقوی کا موقف ہے کہ انہوں نے یہ رقوم بوٹون کرکٹ لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں جمع کیںاور بعد میں تحریک انصاف کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کر دیں۔اس طرح بادی النظر میں تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کے گرداب میں پھنستی نظر آتی ہے۔
دراصل عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کے نتائج سے آگاہی حاصل تھی اور انہوں نے مخصوص حکمت عملی کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو متنازع بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ظاہری حقائق کی بنا پر لگتا ہے کہ اس کیس میں حالات تحریک انصاف کے خلاف ہیں‘ اس سلسلے میں یہیں تک اکتفا کرنا ہو گا کیونکہ فیصلہ محفوظ ہے‘ اس لیے مزید تبصرہ مناسب نہیں۔ یقیناالیکشن کمیشن آف پاکستان ممنوعہ فنڈنگ کیس کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد ہی فیصلہ سنائے گا اور اگر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوگئی تو الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کے ساتھ ساتھ پارٹی کا انتخابی نشان واپس لینے کا بھی قانوناً مجاز ہے جس کے بارے میں دفعہ 215 واضح ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان آگے چل کر دفعہ212 اور214 کا سہارا لیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ریفرنس بھی بھیج سکتاہے کہ چونکہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی ہے لہٰذا وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17کے مطابق کارروائی کرے۔ان مفروضات کو علیحدہ رکھ کر غور کیا جائے اور ممنوعہ فنڈنگ ضبط ہونے پر ہی اکتفا کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس سے عوام کی نظروں میں پارٹی کی ساکھ کو دھچکا پہنچے گا اور اس سے عمران خان صاحب کے دیگر اداروں کیلئے عطیات کی مہم بھی متاثر ہوسکتی ہے جبکہ حکومتی جماعتیں ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی سے ووٹرز کو متاثر کر نے کی کوشش کریں گی۔
دوسری جانب قومی احتساب بیورو کا ترمیمی بل جسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا تھا‘صدر مملکت نے بغیر دستخط واپس کر دیا ہے۔ آئین کے مطابق یہ مجوزہ بل دس دن کے بعد خودبخود نافذ العمل ہو چکا ہے اور عمران خان صاحب نے اسے اپنے انتخابی بیانیے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔بہرحال صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب بیورو کے ترمیمی بل کے بارے جو ریمارکس دیے ہیں وہ ہمارے نظام کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ صدر مملکت کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور شدہ بل رجعت پسندانہ ہے اور اس سے قانون مفلوج ہو گا اور بدعنوانی کو فروغ ملے گا جبکہ احتساب کا عمل کمزور کرنا نہ صرف خلاف آئین بلکہ مسائل زدہ عوام کے بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ صدر مملکت پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران متعدد بار متنازع آرڈیننس اور صدارتی ریفرنس بھی بھجواتے رہے جو خودسوالیہ نشانات ہیں لیکن اب حکومت نے قومی احتساب بیورو کے قانون میں جو ترامیم کی ہیںاس سے عمران خان‘ اپنی ماضی کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ قوم کے ذہنوں میں سوالیہ نشان اُبھار رہے ہیں کہ موجودہ حکومت قومی احتساب بیورو کے اختیارات ختم کر کے اپنے مالی مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔ اصولی طور پر قومی احتساب بیورو کے اختیارات ختم کر کے موجودہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل (A)2 کی خلاف ورزی کی ہے‘مگر بدقسمتی سے عمران حکومت بھی احتساب کے معاملے میں یک طرفہ کارروائی کر کے عوام میں مثالی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔سابق حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو جس انداز سے گھیرا ہوا تھا اس سے بزدار گروپ اور طاقتور ٹائیکونز کو فوائد حاصل ہوتے رہے اور ان کے چند مشیران اوروزرا نے بھی احتساب بیورو کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔حالانکہ چیئرمین نیب کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی ‘ وہ برملا حقائق قوم کے سامنے لا سکتے تھے کہ ان کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں