"KDC" (space) message & send to 7575

مقامی حکومتوں کا نظام اور قومی سیاست

پاکستان میں ایک جمہوری وفاقی طرز کا نظامِ حکومت رائج ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وفاق اور وفاق کو تشکیل دینے والی اکائیوں کے درمیان کسی طے شدہ فارمولے کے تحت اختیارات اور فرائض کی تقسیم ضروری ہے۔ وفاقیت کی اصل روح تقسیمِ اختیارات اور خودمختاری کے احترام سے مشروط ہوتی ہے۔ اگر اسے نظر انداز کر دیا جائے یا کم اہم تصور کیا جائے تو وفاق کا وجود ہی خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ وفاقیت کا اصل جوہر‘ وفاق میں شامل اکائیوں کے رضا کارانہ اتحاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ پاکستانی تاریخ مرکز اور صوبوں کی کشمکش اور چھوٹی قومیتوں کی طرف سے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔
وفاقیت میں ایک اور بنیادی پہلو وفاق اور وفاق کو تشکیل دینے والی اکائیوں کے درمیان تقسیمِ اختیارات کا متفقہ فارمولہ ہے۔ ہمارے ہاں وفاقی اکائیوں کا قومی تشخص بھی ایک اہم مسئلہ رہا ہے جو بہت سے سیاسی پہلوئوں کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے؛ یعنی صوبہ سندھ، سندھیوں کا ہے‘ بلوچستان بلوچوں کا‘ پنجاب پنجابیوں کا اور صوبہ خیبر پختونخوا پختونوں کا ہے۔ بلاشبہ ان صوبوں میں دیگر نسلوں اور زبانوں سے وابستہ عوام بھی بستے ہیں؛ تاہم اوّل الذکر قومیتوں کی عددی برتری اور دھرتی سے تاریخی وابستگی کی بنا پر انہیں غالب حیثیت میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں مقامی حکومتوں کو صوبوں کے مجموعی فریم ورک میں ہی کام کرنا ہوتا ہے۔ جس ملک میں جمہوری وفاق کے حوالے سے مختلف مسائل زیرِ بحث ہوں‘ وہاں مقامی حکومتوں کے حوالے سے دائرۂ اختیار اور کنٹرول کا سوال انتہائی نازک صورت اختیار کرجاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ اہم مسئلہ وسائل کی تقسیم کا ہے کیونکہ وفاق میں مرکز اور اکائیوں کے لیے ریونیو مقامی سطح ہی سے پیدا کیا جاتا ہے۔ مقامی اور بالائی حکومتوں کے درمیان یہ مسئلہ ایسی وفاقی مملکت میں‘ جہاں پہلے ہی سے مسائل موجود ہوں‘ اگر کوئی واضح اور متفقہ پالیسی اختیار نہ کی جائے تو یہ اور بھی پیچیدگی اختیار کر لیتے ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرا مسئلہ جو ہمارے ہاں بڑی شدت سے پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جب 2000ء میں مقامی حکومتوں کو حکمرانی کی تیسری سطح قرار دینے کی کوشش کی گئی تھی تو وفاقی اکائیوں بالخصوص مختلف چھوٹی قومیتوں کی طرف سے شدید مخالفت کی گئی تھی کیونکہ پاکستان کے صوبہ جاتی نظام کو طویل عرصے سے تاریخی حیثیت اور شناخت حاصل رہی ہے جو کسی حد تک قومی وحدتوں کے قومی تشحص کی مظہر بھی ہے۔ اگر اس حیثیت میں کسی بھی طریقے سے تبدیلی آ جائے تو نئے مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اگر ضلعی حکومتوں کو صوبوں کے انتظامی کنٹرول سے آزاد کر کے حکمرانی کا تیسرا سرکل تسلیم کر لیا جائے تو صوبوں کے اندر بعض اضلاع اس قومی تشخص سے کسی قدر باہر نکل آتے ہیں۔ یہ فارمولہ کسی کو قبول نہیں تھا کیونکہ سیاسی قوتوں کو اندیشہ تھا کہ تاریخی ارتقا کا یہ منطقی انجام ہو سکتا ہے کہ کسی نہ کسی وقت ضلعی سطح کی حکمرانی زیادہ خودمختاری حاصل کر جائے۔ پاک و ہند کے کلچر میں تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا ہی سیاسی کامیابی کا مظہر تسلیم کیا گیا ہے‘ اسی وجہ سے مقامی حکومتوں اور ذیلی اداروں کو خودمختار حیثیت میں کبھی مضبوط نہیں ہونے دیا گیا‘ سو اس بحث کو ملتوی کرنا ہی سیاسی مصلحت تھی؛ چنانچہ صدر پرویز مشرف نے جب یہ پلان پیش کیا تو اس کی کئی اطراف سے مخالفت سامنے آئی‘ بعد ازاں قومی تعمیر نو بیورو کے چیئرمین جنرل تنویر نقوی اور ان کی مشاورتی ٹیم کے ایما پر یہ تجویز واپس لے لی گئی۔
2000ء میں صدر پرویز مشرف نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا تو قومی تعمیر نو بیورو کے چیئرمین جنرل تنویر نقوی نے 2001ء میں پرانے بلدیاتی نظام کو تبدیل کر کے Devolution Plan متعارف کرایا اور ناظم کو ضلعی سطح پر تمام اختیارات دے دیے گئے۔ اس میں اہم بات یہ تھی کہ مالی اختیارات بھی ناظم کے پاس تھے جس سے مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبوں میں تیزی لانے میں بہت آسانی پیدا ہوئی۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز سے تیز تر ہو گئی اور بیورو کریسی کی حائل کردہ رکاوٹیں بھی بہت کم ہو گئیں۔ اس نظام کو متعارف کرانے سے قبل قومی تعمیر نو بیورو نے بہت سے ممالک کے بلدیاتی نظاموں کا جائزہ لیا اور کئی ممالک کے دورے کر کے مشاہدات سے بھی مدد لی تھی۔ اس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی بطور جوائنٹ سیکرٹری الیکشن راقم الحروف نے کی ۔ بعد میں جنرل تنویر نقوی کی ہر بریفنگ میں بھی میں شریک رہا۔ تنویر نقوی ترکی کے بلدیاتی نظام سے بہت متاثر تھے؛ تاہم مقامی طور پر اس نئے نظام کو نافذ کرنے میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دو سے تین سال تو اس نئے نظام کو سمجھنے میں لگ گئے۔ اس نظام میں انصاف گھر کی دہلیز پر پہنچانے کا بھی عزم کیا گیا تھا۔ جب اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو اسی دوران صدر پرویز مشرف فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد اپنے اختیارات سے محروم ہو گئے اور لامحالہ 18 اگست 2008ء کو انہیں صدارت سے مستعفی ہونا پڑ ا۔ ان کی رخصتی کے بعد اس نظام کی افادیت جانے بغیر اسے مارشل لاء دور کی پیداوار قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا گیا اور پھر ہر صوبے نے اپنا ایک نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے زیر نگرانی صوبہ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات جولائی 2022ء میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ (فی الوقت سندھ میں ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن سے کورونا کیسز میں اضافے اور حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی بنا پر الیکشن کا دوسرا مرحلہ ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے) پنجاب کا 2021ء کا بلدیاتی نظام اب ختم ہو چکا ہے کیونکہ مقررہ وقت پر الیکشن نہیں ہو سکے‘ جو پہلے مرحلے میں پنجاب کے چند اضلاع میں مئی 2022ء میں ہونا تھے۔
پاکستان میں بلدیاتی اداروں کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ اس سے قومی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے استحکام پر براہِ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں بلدیاتی الیکشن کے سبب نچلی سطح تک ووٹروں سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہیں۔ یہ بنیادی جمہوریت کے تصور اور مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں مارشل لاء ادوار میں ہی بلدیاتی نظام پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔ اگرچہ ہر دور میں ایک نیا نظام متعارف کرایا گیا جس کی اپنی خوبیاں اور خامیاں تھیں مگر ایک بات طے ہے کہ مارشل لا حکومتوں کو جواز فراہم کرنے میں بلدیاتی نظاموں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے کے سبب وفاقی سطح پر جمہوریت کی عدم موجودگی سے وہ لاتعلق رہے۔ جب اقتدار جمہوری سیاسی قوتوں نے سنبھالا تو بلا تخصیص سبھی جماعتیں بلدیاتی نظام کو لاگو کرنے اور انتخابات کرانے سے گریزاں رہیں۔ اگر اس دوران انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا بھی گیا تو اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت اور حکم پر۔ حالانکہ دور رس نتائج میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ بلدیاتی نظام نہ صرف صوبائی اور وفاقی حکومت کو بنیادیں فراہم کرتا ہے بلکہ یہ متبادل لیڈر شپ بھی فراہم کرتا ہے اور عوامی مسائل کے حل میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں معاشی‘ سماجی و سیاسی مسائل کا جو انبار پایا جاتا ہے‘ ان کے پس پردہ عوامل میں کہیں نہ کہیں بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی ایک نمایاں عامل ہے جس پر آج تک سیاسی جماعتوں کی جانب سے غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں