"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی درست سمت

پنجاب کے لیے نئے لوکل گورنمنٹ نظام میں14 نئی میونسپل کارپوریشنز اور 4015یونین کونسلز بنیں گی۔ بلدیاتی اداروں کا انتخاب شو آف ہینڈ سے ہوگا۔ تحصیل اور یونین کونسلز کو بحال کر دیا گیا ہے۔ مقامی حکومتوں کے سربراہ کابینہ تشکیل دے سکیں گے۔ ایک تہائی کابینہ ٹیکنو کریٹس اورماہرین پر مشتمل ہوگی۔ سابق حکومت نے پنجاب کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بار بار تبدیل کیا اور صوبائی کابینہ نے لوکل گورنمنٹ کے ایکٹ میں ایسی شقیں شامل کیں جو الیکشن ایکٹ 2017ء سے متصادم تھیں۔ ابتدا میں سابق پنجاب حکومت نے 2019ء‘ 2020ء اور 2021ء میں بار بار لوکل گورنمنٹ آرڈیننسوں کا سہارا لیا لیکن بدقسمتی سے پنجاب میں مقامی حکومتوں کے لیے انتخابات کے لیے زمینی حقائق کے مطابق قانون سازی نہیں ہو سکی۔ اب پنجاب حکومت نے لوکل گورنمنٹ کے لیے نیا قانون بنایا ہے جسے ایوانِ اقبال میں منعقد ہونے والے اسمبلی اجلاس نے منظور بھی کر لیا ہے اور فوری طور پر گزٹ نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ بظاہر اس لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں 2013ء‘ 2019ء اور 2021ء سے بہتر انداز میں قانون سازی کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ قانون سازی پنجاب کے عوام کے مفاد میں ہے لیکن اپوزیشن کی غیر موجودگی میں یک طرفہ طور پر یہ قانون سازی کی گئی‘ اب اگر 17 جولائی کے ضمنی انتخاب‘ جو 20 صوبائی نشستوں پر ہو رہے ہیں‘ کے نتائج تحریک انصاف کے حق میں آتے ہیں تو پھر یہ قانون عملی صورت اختیار کر جائے گا۔ ان حلقوں میں انتخابات کی صورتحال کے بارے جو اندازے لگائے جارہے ہیں ان کے مطابق پنجاب کے ان حلقوں کے ووٹرز سابقہ حکومت کی گورننس اور عثمان بزدار کی علاقائی اور مقامی سطح کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے نالاں ہیں۔ مقامی طور پر ریونیو اور تھانوں کی سطح پر عوام کو ریلیف نہیں مل سکا‘ اس لیے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ان حلقوں کے ووٹرز پنجاب کی روایت کے مطابق حکمران جماعت کی حمایت کریں گے تاکہ ان کے جو مسائل ساڑھے تین سال سے التوا میں ہیں‘ ان معاملات میں موجودہ حکومت ان کے لیے آسانیاں پیدا کر ے۔مگرحالات کا دوسرا پہلو جو بلا شبہ ایک تلخ حقیقت ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور زراعت کے شعبے کے لیے کوئی نمایاں پیکیج نہ ملنے سے پنجاب کا کاشت کار سخت نالاں ہے؛چنانچہ آنے والے ضمنی انتخابات میں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ پنجاب کی روایت رہی ہے کہ جلسوں میں بڑے اجتماع کے باوجود پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ کے وقت رائے میں تضاد سامنے آتا ہے۔
اب پنجاب کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022ء کی طرف آتے ہیں‘ ان موجودہ قوانین کے تحت پنجاب میں 4015 یونین کونسلیں ہوں گی۔ ہر یونین کونسل میں 15 ارکان ہوں گے جن میں تین خواتین‘ دو نوجوان‘ ایک مزدور اور ایک غیر مسلم ہوگا۔ ہر یونین کونسل کو دس تا پندرہ لاکھ فنڈز ملیں گے اور ضلع کی سطح پر دس محکمے ہوں گے جن کو حکومت کی ہدایت پر مقامی ڈپٹی کمشن ضلعی اتھارٹیاں بنا کر چلائیں گے۔ 2013ء کے ایکٹ میں بھی یہ شرط شامل کی گئی تھی۔ اسی طرح مقامی حکومتوں کے نمائندگان ڈپٹی کمشنر کے مرہونِ منت ہوں گے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی طرز پر ہر کونسل میں لیڈر آف اپوزیشن ہوگا۔ ضلعی اتھارٹیز کے چیئرپرسنز منتخب لوکل گورنمنٹ سربراہ ہوں گے۔ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات پارٹی کی بنیادوں پرہوں گے۔ اس طرح وفاقی قانون کے ایکٹ 63 (A) کے تحت فلور کراسنگ کی ممانعت ہوگی۔ نیا قانون انتظامی‘ مالی اور سیاسی طور پر خودمختار ہوگا مگر لوکل گورنمنٹ کو اپنے دائرہ کار کے اندر رہنا ہوگا اور اسی دائرہ کار کی آڑ میں ان کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ یونین کونسلوں کے چیئرمین کونسلوں کے ممبر اور شہری یونین کونسلوں والے اپنی میٹرو پولیٹن اور کارپوریشنوں کے ممبر ہوں گے جبکہ وائس چیئرمین اپنی تحصیل اور ٹاؤن کونسلوں کے۔ یونین کونسلوں میں 13 کونسلرز مختلف فنکشنز کے مطابق کام کریں گے۔ کونسل کا سیکرٹری زیادہ تر انتظامی کام کرے گا مگر کونسلرز ترقیاتی کام کر سکیں گی۔ اسی قانون کے تحت لوکل گورنمنٹ کونسل کا دورانیہ پانچ سال کا ہوگا اور تمام ارکان سیاسی جماعتوں کے رکن بھی ہوں گے۔
پنجاب میں مقامی حکومتوں کے ارکان کی تعداد 20225 ہوگی‘ گویا جو بھی سیاسی جماعت مقامی حکومتوں کی یونین کونسلوں پر تسلط قائم کر لیتی ہے تو ان حلقوں میں سیاسی جماعت کا امیدوار آئندہ انتخابات میں آسانی سے صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوسکے گا۔ عمران خان کا وژن تھا کہ مقامی حکومتوں میں میئر اور چیئرمین کا انتخاب براہ راست کرایا جائے۔ ان کی قانونی ٹیم نے انہیں اسلام آباد میں مقامی حکومت کے انتخاب کے لیے میئر کا انتخاب براہ راست کرانے کا مشورہ دیا تھا جس کی تیاری مکمل کر لی گئی تھی اور اسلام آباد میں 50 یونین کونسلوں کا قیام بھی مکمل کر دیا گیا تھا‘لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا اسی طرح پنجاب میں بھی گورنر نے آرڈیننس جاری کیے مگر وہ بھی قانون سازی نہ ہونے کے باعث غیر مؤثر ہو گئے۔
اگر براہ راست انتخابات کے مضمرات پر غور کیا جائے تو اس سسٹم کے تحت میئر کے انتخابات کے لیے امیدوار کو 30 سے40 کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے کیونکہ لاہور‘ فیصل آباد‘ راولپنڈی اور ملتان میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے تمام حلقوں کو شامل کر کے میئر نے انتخاب لڑنا تھا۔ لاہور میں قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 28 نشستوں کے مقابلے میں ایک میئر ہونا تھا جو موجودہ حالات میں کرپشن کا نیا پنڈورا بکس کھول دیتا۔ انڈین الیکشن کمیشن نے میئر کے لیے براہ راست انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ بھارت کے معروضی حالات کے پیش نظر میئر کے براہ راست انتخابات سٹیٹ آف یونین کے مفاد میں نہیں ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان پنجاب کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر سوال اٹھارہے ہیں۔مگر یاد رہے کہ ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 میں دھاندلی زدہ انتخاب پر چیف الیکشن کمشنر نے بد عنوانی‘ بے ضابطگیوں اور غیرقانونی سرگرمیوں پر 60 سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ اب ان حالات میں قرین قیاس ہے کہ کوئی سرکاری افسر ضمنی انتخابات میں دھاندلی نہیں کروائے گا۔ ڈسکہ کے ڈی پی او نے چند روز پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے اعتراف کیا کہ عثمان بزدار حکومت نے صوبائی عملے کو دھاندلی کرانے کے لیے ترغیب دی تھی اور عملے میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔بہرکیف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے حالیہ مرحلے اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں جو حالات بنے اس سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کے لیے پنجاب کے ضمنی انتخابات کارکردگی کے ثبوت کا امتحان ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں