"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب، ضمنی انتخاب اور الیکشن کمیشن کے چیلنجز

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے پانچ اراکین کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب کے بعد کی صورتحال پر گہرا اثر پڑے گا۔ 17 جولائی کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ عمران خان کی انتخابی مہم نے ووٹرز میں شعور بیدار کر دیا ہے اور غالب امکان ہے کہ ووٹرز اپنے اپنے حلقوں میں مہنگائی‘ بے روزگاری اور پنجاب حکومت کی گورننس کو مدِنظر رکھتے ہوئے حقِ رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ الیکشن کے عملے کو احساس ہونا چاہیے کہ حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں گزشتہ برس دھاندلی‘ زور آوری اور انتخابی قوانین میں مجرمانہ غفلت پر ان کو سخت ترین سزا مل چکی ہے؛ چنانچہ کسی حلقے میں انتخابی عملہ‘ انتظامیہ اور پولیس کوتاہی کی مرتکب ہوئی تو چیف الیکشن کمشنر الیکشن قوانین کے تحت ان کو سزا دینے میں دیر نہیں کریں گے اور اس حلقہ میں ازسرِ نو انتخاب کا بھی امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب کی انتظامیہ الیکشن کمیشن کے ماتحت رہے گی۔
17 جولائی کے ضمنی انتخاب میں کامیابی و ناکامی کے دونوں پہلو میرے سامنے ہیں۔ انتخابی معرکے کا فیصلہ 17 جولائی کی رات گئے سامنے آجائے گا لیکن عمران خان صاحب کی انتخابی مہم سے محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ان کو مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے تو وہ ان ضمنی انتخاب کے نتیجے کو مسترد کر کے ملک گیر مہم چلانے پر نکل پڑیں گے‘ حالانکہ ووٹرز کا پولنگ سٹیشن پر جانے‘ ووٹ کاسٹ کرنے اور جلسے میں شریک ہونے میں بڑا فرق ہے۔ ووٹرز نے جہاں ان تین مہینوں میں موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی کو مدنظر رکھنا ہے وہاں وہ عمران خان کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی کو بھی ذہن میں رکھیں گے۔ میں نے موجودہ حکومت کے بعض وزرا اور وزرائے اعلیٰ کی تقاریر کا بھی جائزہ لیا ہے‘ ان کے وہی ریمارکس ہیں جو ماضی میں بطور حکمران جماعت عمران خان استعمال کیا کرتے تھے یعنی صبر کریں‘ مشکل وقت آنے والا ہے۔ عوام ان ریمارکس پر یقین نہیں رکھتے‘ ان کو عملی طور ریلیف دینا ہوگا ‘جو حکومت کے بس میں نہیں ہے۔
عمران خان ان دنوں اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور مخصوص اینکرز پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کو ادراک ہونا چاہیے کہ انتخابی جنگ اینکرز کے زورِ بیان سے نہیں جیتی جا سکتی۔ عوام اور ووٹرز اس کو اہمیت نہیں دیتے‘ اسی طرح سوشل میڈیا پر جو تحریک شروع کر رکھی ہے‘ اس کا بھی ووٹرز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے حکومتی گورننس اور موجودہ اپوزیشن کے مہروں کو دیکھنا ہے۔ اسی طرح حکمران جماعت کے چیدہ چیدہ رہنما‘ اپنی تقاریر میں مخصوص سیاسی شخصیات کی ماضی کی کارکردگی کو جس انداز میں پیش کررہے ہیں اس سے ووٹرز کو منفی پیغامات جا رہے ہیں۔ اگر ان اہم سیاسی شخصیات کو قوم کا احساس ہے تو ان کو ان حالات میں ووٹرز کے درمیان ہونا چاہیے۔ قوجی احتساب بیورو کے اختیارات سلب کرنے سے بھی ووٹرز پر اچھا اثر نہیں پڑا۔ اس کے برعکس عمران خان کی حکمتِ عملی سے بھی ووٹرز کو احساس ہو رہا ہے کہ خان صاحب نے لیڈر آف اپوزیشن کا اہم کردار ادا کرنے کے بجائے 130 کے لگ بھگ اراکینِ اسمبلی سے استعفیٰ لے کر درپردہ موجودہ حکومت کے لیے من مانی کارروائی کے لیے کھلا راستہ فراہم کیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ان اراکین کے استعفے قبول کرنے سے پہلے چھ اور 10 جون کو انہیں اپنے چیمبر میں طلب کیا مگر اراکین نے ملنے سے انکار کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان مسلسل موجودہ حکومت کو غیر آئینی حکومت قرار دے رہے ہیں اور موجودہ حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہوا ہے‘ ان حالات میں سپیکر قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت استعفیٰ قبول کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ بادی النظر میں سپیکر آئین سے انحراف کر رہے ہیں اور آئین پر عمل درآمد نہ کر کے آرٹیکل چھ کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ آصف علی زرداری اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کرنے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین کا استعفیٰ منظور کر کے عمران خان کو بند گلی میں کھڑا کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین کے مستعفی ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان ان حلقوں میں ضمنی انتخابات کروانے کے لیے جب شیڈول جاری کرے گا تو خان صاحب سیاسی اور پارلیمانی طور پر تنہا رہ جائیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان 17 جولائی کے بعد ممکن ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دے‘ جس سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ خان صاحب نے الیکشن کمیشن پر جو تنقیدی حملے شروع کر رکھے ہیں اس سے الیکشن کمیشن کسی دباؤ میں نہیں آئے گا اور فیصلہ آٹھ سال کے طویل مقدمہ کے ریکارڈ کے مطابق ہی آئے گا۔ اب اگر ممنوعہ فنڈنگ ضبط ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف کے خلاف آرٹیکل 17 کے تحت کارروائی کے لیے راستے کھل جائیں گے۔ عمران خان محب وطن سیاستدان ہیں‘ مگران کے ارد گرد جو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور بلاگرز کھڑے ہیں ان کے اپنے ذاتی مفادات ہیں۔ وہ عمران خان صاحب کی مقبولیت کا سہارا لے کر ان کی طرف سے ملک کے مفاد کے برخلاف مہم چلا رہے ہیں۔ عمران خان ہر تقریر میں دھمکی دے رہے ہیں کہ ان کو ہراساں کیا جا رہا ہے‘ دیوار سے لگایا گیا تو چپ نہیں رہیں گے‘ سب راز کھول کر بتا دیں گے۔ خان صاحب کو ادراک ہونا چاہیے کہ اگر انہوں نے ملکی راز افشا کیے تو یہ اس حلف کی خلاف ورزی ہوگی جو انہوں نے آئین کے آرٹیکل 65 کے تحت اٹھایا ہوا ہے‘ اور ان کو تاحیات نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 65 کی خلاف ورزی کے دور رس نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ یاد رہے جب 1968ء اور 1969ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند کا راز افشا کرنے کی دھمکی دی تھی تو اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ اے بی اعوان اور آئی بی کے ڈائریکٹر این اے رضوی نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے راولپنڈی میں ملاقات کر کے دھمکی دی تھی کہ اگر تاشقند کے راز کی آڑ میں ایسا کوئی راز افشا کر دیا تو ان کے خلاف ڈیفنس رولز آف پاکستان کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ اس دھمکی کے بعد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند کے راز کا ڈرامہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ عمران خان تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں‘ مملکت کے ساتھ کھیل کھیلنا آسان نہیں ہوتا۔ عمران ریاض اینکر ہیں‘ انہوں نے عمران خان کی سپورٹ کی آڑ میں اپنے یوٹیوب چینل کی مارکیٹ بڑھائی ہے اور ان کی حمایت کوکمرشل زاویے سے دیکھا جائے گا۔
لاہور میں 17 جولائی کے ضمنی انتخابات الیکشن کمیشن کے لیے کڑا امتحان ہیں۔ اگر معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ انتخابات کرانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوگا۔ چیف الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے لیے‘ الیکشن کی تاریخ سے دو دن پہلے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو مدعو کر کے ان سے عملی طور پر معاونت حاصل کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں