"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب ضمنی انتخابات او ر جمہوریت کے تقاضے

سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اپنی زندگی میں بلاول کووزیراعظم بنتا دیکھوں۔ اسی خواہش میں زرداری صاحب کی دوبارہ پاکستان کا صدر بننے کی خواہش بھی شامل ہے اور اطلاع یہ ہے کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جگہ وہ خود صدرِ مملکت بننا پسند کریں گے۔ اس ضمن میں ان کی ملاقات چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سے بھی ہوتی رہتی ہے۔
17جولائی کو ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات اور پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد ملکی سیاست کا نقشہ تبدیل ہو جانے کے امکانات ہیں۔ 17جولائی کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کئی خدشات بھی سر اُٹھا رہے ہیں؛ تاہم کئی ہفتوں سے جاری سیاسی اور انتخابی جنگ کا منطقی نتیجہ 17جولائی کی رات کو سامنے آ جائے گا۔ حمزہ شہباز کو اپنی وزارتِ اعلیٰ بچانے کے لیے صوبائی اسمبلی کی نو نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہوگی اور تحریک انصاف کے لیے بھی سیاسی طور پر ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ اس لیے عمران خان پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے کے لیے خود انتخابی مہم کے میدان میں موجود رہے۔ اس مہم کے دوران انہوں نے اپنی تقاریر میں سیاسی شخصیات اور اداروں پر بھی الزامات اور خدشات کا بھی اظہار کیا اور ایسی فضا بنانے کی کوشش کی کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) انتخابات میں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرا لیتی ہے تو وہ اسے حمزہ حکومت کی انتظامی دھاندلی اور الیکشن کمیشن اور نادرا کی سازش قرار دیں گے اور ضمنی انتخابات کے نتائج کو اسی طرح مسترد کردیں گے جیسے قومی اتحاد نے سات مارچ 1977ء کے انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ملک گیر مہم چلا کر ملک کا سیاسی نظام زمین بوس کردیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977ء کا سانحہ پیش آیا ۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ ووٹرز نے اپنے مفادات کے پیش نظر پولنگ سٹیشنز پر اپنے حقِ رائے دہی کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ انتخابی جنگ میں social media activists اور اینکرز کے فرمودات کامیابی کی علامت نہیں ہوتے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جن اینکرز کو سیاستدان اپنے دائرۂ اثر میں رکھ کر برملا ان کو ہیرو کا خطاب دیتے ہیں وہ اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں ایسے میڈیا پرسنز کی تعریف نہیں کی جاتی۔ ہمارے ملک میں ایسی فضا پیدا ہو چکی ہے کہ اپنے پسندیدہ میڈیا پرسنز کو قومی اعزازات سے بھی نواز دیا جاتا ہے اور عمران خان ضمنی انتخابات میں اپنے پسندیدہ میڈیا پرسنز اور social media activists پر انحصار کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا کیونکہ قومی اتحادی حکومت کے لیے پنجاب کے ضمنی انتخابات اتنے ہی اہم ہیں جتنے عمران خان کی تحریک انصاف کے لیے‘ لیکن موجودہ انتخابی جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اتحادی ٹیم میں شامل بیشتر اتحادی اس انتخابی جنگ سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور ان کی حکمت عملی بھی بظاہر تبدل ہوتی نظر آتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد ابھی تک سعودی عرب میں ہی ہیں جبکہ آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز کو انتخابی مہم چلانے کی ترغیب نہیں دی۔ پنجاب میں رسمی طور پر تو پیپلز پارٹی کے ورکرز ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہیں لیکن غالب امکان ہے کہ عملی طور پر ان کے ووٹرز 17جولائی کو پولنگ سٹیشن پر آنے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے۔
عمران خان کی انتخابی مہم سے ووٹرز پر گہرے اور منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ جب ووٹرز کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ عمران خان قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو ماضی کی روایت کے پیش نظر ایسی سیاسی شخصیت کا انجام ایئر مارشل اصغر خان کی طرح کا ہوتا ہے۔ خان صاحب میری نظر میں ایئر مارشل اصغرخان بننے جا رہے ہیں۔ ان کو امریکہ کے خلاف صف بندی کرنی تھی اور قومی اداروں کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کے بارے میں وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان کی ملاقاتیں مریم نواز سے ہوتی رہی ہیں۔ ایسے بیانات سے ان کی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ عمران خان کے تھنک ٹینک کے اراکین ان کو ایسے بیانات سے کیوں نہیں روکتے۔ چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ چند ہفتوں سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سخت بیانات دیتے چلے آ رہے ہیں۔ شاید الیکشن کمیشن کے سربراہ ریاستی مفادات کی وجہ سے خاموش ہیں اور اگر انہوں نے خان صاحب کے مبینہ الزامات کے جواب میں حقیقت بیان کر دی تو خان صاحب کو سیاسی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ بظاہر خان صاحب کے الزامات کے پس پردہ حقائق کچھ اور ہیں‘ شاید وہ چیف الیکشن کمشنر کو دباؤ میں لا کر ممنوعہ فنڈنگ کیس کے بارے میں بے اثر فیصلہ چاہتے ہیں‘ لیکن انہیں احساس نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس بہت قیمتی مواد موجود ہے جو وہ مناسب وقت پر افشا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات اس موڑ پر آ چکے ہیں کہ حسبِ توقع نتائج نہ آنے کی صورت میں یہ اندیشہ ہے کہ عمران خان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے اور الیکشن کمیشن کی منصوبہ بندی‘ پولنگ سکیم اور نادرا کے کردار اور پولنگ عملے کی کارکردگی پر الزامات عائد کرتے ہوئے سٹریٹ پاور کو متحرک ہونے کی کال دے سکتے ہیں جس سے پنجاب کا انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ جائے گا۔ عمران خان صاحب نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کر رکھا ہے مگر انہوں نے ضمنی انتخابات کی مہم میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ اس صورتحال کو ووٹرگہری نظر سے دیکھ رہے ہیں اور چوہدری خاندان میں جو اختلافات کی خبریں آتی رہی ہیں ان کے پس پردہ محرکات سے بھی ووٹرز بخوبی آگاہ ہیں۔ ان حالات میں بظاہر عمران خان صاحب مطلوبہ رزلٹ حاصل نہیں کر پائیں گے اورصوبائی اسمبلی پنجاب میں جارحانہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے اور پنجاب اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن لیڈر عثمان بزدار کے بجائے کسی مؤثر شخصیت کو آگے لایا جا سکتا ہے جو حکومت کی ہر طرح کی پیش قدمی کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس سے عمران خان مضبوط‘ فعال‘ قومی لیڈر کی حیثیت سے سامنے آسکتے ہیں اور اس کے اثرات وفاق پر بھی پڑیں گے۔ اگر سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے استعفے منظور نہیں کیے تو تحریک انصاف کو فوری طور پر قومی اسمبلی میں واپس آ کر متحدہ اپوزیشن کی کمان سنبھال کر قومی کردار ادا کرنا چاہیے۔
عمران خان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کے بارے میں خدشات ہیں تو ان کے سامنے سپریم کورٹ آف پاکستان کا راستہ موجود ہے۔ سپریم کورٹ قومی دائرے میں رہ کر مثبت کردار ادا کر سکتی ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ نے عمران خان صاحب کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے گریز کیا اور ان کے سابق افراد کو بھی ریلیف دیا‘ لہٰذا خان صاحب کو الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بلاوجہ محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ انتخابات میں دھاندلی‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذریعے نہیں ہوتی۔ ڈسکہ رپورٹ سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ دھاندلی میں صوبائی حکومتیں ملوث ہوتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں