"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے پریشان ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ متعدد مرتبہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں بلکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے اگلے روز عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس الیکشن کمیشن پر انہیں اعتماد نہیں ہے۔ عمران خان صاحب نے متعدد مرتبہ چیف الیکشن کمشنر پر حمزہ شہباز اور مریم نواز کے ساتھ لاہور میں خفیہ ملاقات کا الزام بھی عائد کیا حالانکہ باوثوق ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے مسلم لیگ (ن) کے ان رہنماؤں سے کبھی ملاقات نہیں کی بلکہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران عمران خان خود چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے لیے پیغام بھجواتے رہے مگر چیف الیکشن کمشنر نے اس کو رد کر دیا کہ ان کا عہدہ اس امر کی اجازت نہیں دیتا۔
اس وقت دو طرح کی خبریں چل رہی ہیں۔ ایک گروپ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس عدالتی اختیار نہیں جبکہ ایک خبر کے مطابق ملک کے ایک ممتاز قانون ساز و ماہر قانون نے عمران خان کو بریف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ممنوعہ فنڈنگ کیس کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کے تحت ضبط کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس التوا میں رکھنے کے لیے ساڑھے چار سال تک مؤخر کروایا جاتا رہا‘ بہرحال الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے اس کیس پر طویل وقت صرف کیا اور اہم حقائق کھوج نکالے۔ اب ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے اور 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کا مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے اور 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب بھی مکمل ہو جائے گا۔ اس دوران حکومتی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کی درخواست کی گئی ہے بلکہ 19 جولائی کو خود وزیراعظم شہباز شریف نے ٹویٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے درخواست کی کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے۔
یاد رہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کی نوعیت بڑی حساس ہے‘ جس کے فیصلے سے ملک کی سیاسی تاریخ کا دھارا ہی بدل جائے گا۔ بہرکیف وزیراعظم شہباز شریف کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے پاس کسی قسم کی رائے دینے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا معاملہ اب آخری مرحلے میں ہے‘ بعض اطلاعات کے مطابق فیصلہ جولائی کے آخری ہفتے میں ہو جائے گا۔ ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے سے پہلے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس دائر کرنے جا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر نے پیمرا سے چیئرمین تحریک انصاف کی تقاریر اور پرنٹ میڈیا کا ریکارڈ منگوا لیا ہے۔ شنید ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 10 کے تحت کارروائی کر رہا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 233 اور آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت چیئرمین تحریک انصاف اور ان کے سابق وزرا اور پارٹی رہنماؤں کو نوٹسز جاری کرنے جا رہا ہے۔ اس طرح امکان یہ ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ بھی سامنے آئے گا اور توہین عدالت کا کیس بھی آئین و قانون کے تحت چلے گا۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے پریس کانفرنسوں‘ عوامی جلسوں‘ قومی اسمبلی کے فلور پر اور قوم سے خطاب کے دوران بھی چیف الیکشن کمشنر اور ارکان الیکشن کمیشن کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا، جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان پریس ریلیز کے ذریعے انہیں ایڈوائس دیتے رہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات کو مدنظر رکھیں۔ اس دوران دو وزرا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی گئی مگر ان دونوں وزرا نے معافی مانگ لی جسے الیکشن کمیشن نے مشروط طور پر قبول کر لیا تھا۔ شاید الیکشن کمیشن کا خیال یہ تھا کہ ممکن ہے ان وزرا کی معافی کے بعد وزیراعظم عمران خان کو بھی احساس ہو جائے؛ تاہم اب بات آگے بڑھ چکی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کا کہنا ہے کہ اب الیکشن کمیشن کی خود مختار رٹ اور ساکھ کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے بیانات سے الیکشن کمیشن کے غیر جانبدارانہ طریقہ کار پر حرف آ رہا ہے۔
عمران خان اور ان کے آئینی و قانونی ماہرین کو احساس ہونا چاہئے کہ الیکشن کمیشن کے پاس سپریم کورٹ آف پاکستان کے مساوی اختیارات ہیں‘ لہٰذا الیکشن کمیشن اپنے نوٹسز میں عمران خان صاحب سے ان کے الزامات کے بارے میں استفسار کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان صاحب نے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے دوران مختلف جگہوں پر تقاریر میں الیکشن کمشنر پر ڈھیروں الزامات عائد کیے تھے کہ ہمارا مقابلہ شریف خاندان‘ لوٹوں اور الیکشن کمیشن سے ہے‘ چیف الیکشن کمشنر خفیہ طور پر حمزہ اور مریم سے ملتا رہا ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کروانے کا الزام لگا کر مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ عمران خان یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر نے حالیہ ضمنی انتخابات کو مسلم لیگ (ن) کے حق میں کرنے کی پوری کوشش کی۔ انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سکندر سلطان راجہ الیکشن کمیشن آف پاکستان چلانے کے قابل نہیں اور وہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ متعصبانہ طرز عمل رکھتے ہیں اس لیے انہیں فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ چیئرمین تحریک انصاف یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ انتخابات کے دوران دھاندلی کے متعدد واقعات چیف الیکشن کمشنر کے سامنے لائے گئے مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی کسی کو سزا نہیں دی جس سے بدعنوانی کی حوصلہ افزائی ہوئی کیونکہ کسی کو جواب دہی کا خوف نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کہہ چکے ہیں کہ ان الزامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ الزامات کی تردید کرتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دیتا رہے گا۔ ان الزامات کی بنیاد پر یہ امکان نظر آتا ہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کا فارمولا شاید وہی ہو جو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف استعمال ہوا تھا۔
17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی کسی واضح شکایت کے پیدا نہ ہونے کا کریڈٹ چیف الیکشن کمشنر کو جاتا ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے خدشات کے باوجود اپنا کام آئین کے مطابق سر انجام دیا۔ اس کام میں ریاست کے دیگر ادارے بھی ان کے معاون تھے اور سبھی اپنی بہترین کاوش پر داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود عمران خان صاحب چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس طرح گمان پیدا ہو تا ہے کہ شاید ان کے الزامات کے محرکات ممنوعہ فنڈنگ کیس ہی سے ملتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں