"KDC" (space) message & send to 7575

قومی سیاست کا اہم موڑ

سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا ہے۔جس میں چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے حمزہ شہباز کو بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایسے اختیارات استعمال نہیں کریں گے جن سے انہیں سیاسی فائدہ ہو۔ معزز عدالتِ عظمیٰ نے وزیراعلیٰ کے عبوری نظام کے بجائے ٹرسٹی وزیراعلیٰ کی اصطلاح استعمال کی جیسے 12 اکتوبر 99ء کو پرویز مشرف نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے بجائے چیف ایگزیٹو کا عہدہ تشکیل دیا تھا اور اس کے پیچھے عبدالحفیظ پیرزادہ کی آئینی مہارت کار فرما تھی۔ پرویز مشرف اکتوبر 2002ء تک ملک کے چیف ایگزیکٹو اور بعد ازاں 2008ء تک صدرِ مملکت رہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیراعلیٰ کے بجائے عبوری وزیراعلیٰ ہی رہنے دیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا۔
اتحادی حکومت نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مقدمے کی سماعت فل کورٹ سے کروانے کی استدعا کی تھی جسے عدالتِ عظمیٰ نے مسترد کردیا۔ ان حالات میں ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔حکمران اتحاد نے عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بنچ کی کارروائی سے لاتعلقی اختیار کرنے کا اعلان بھی کیا۔ حکمران اتحاد کا مطالبہ تھا کہ ان کے مقدمے کی سماعت فل کورٹ ہی کرے؛تاہم چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر قرار دیا کہ فل کورٹ خاص نوعیت کے مقدموں میں بنایا جاتا ہے‘ اس مقدمے کے لیے فل کورٹ بنانا ضروری نہیں نیز یہ کہ ایسا بنچ ستمبر میں ہی بن سکے گا‘ تب تک کیا سارے کام روک دیے جائیں؟
ارکانِ اسمبلی کو ووٹ کے معاملے میں ہدایت دینے کے اختیارات پارٹی کے سربراہ کو حاصل ہیں یا پارلیمانی لیڈر کو‘ اس آئینی ابہام کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق فیصلوں کے مطابق اگر پارٹی ہیڈ کی ہدایت کے برخلاف کوئی ووٹ دے گا تو ممبر نہ صرف ڈی سیٹ ہوگا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ایسے ممبر کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا اور سپریم کورٹ ایسی کوئی شق آئین میں نہیں ڈال سکتی جو آئین میں نہ لکھی ہو‘ لہٰذا سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ‘ جس کی بنیاد پر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا انتخاب ہوا وہ متنازع اور غور طلب ہے۔ میرا شروع ہی سے موقف رہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 (اے) میں پارلیمانی پارٹی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مگر پارلیمانی پارٹی کے سربراہ بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اس پس منظر میں اگر صوبائی اسمبلی کے 25 ارکان کے خلاف ریفرنس آنے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ دیکھا جائے اور اسے بنیاد بنایا جائے تو چودھری شجاعت جو پاکستان مسلم لیگ کے تاحیات صدر ہیں‘ کے خط کو حتمی تسلیم کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو مفاد پرستانہ ذہن رکھنے والے قانونی ماہرین نے یرغمال بنایا ہوا ہے جو آئینی باریکیوں کے بارے پارٹی سربراہوں کو بریف نہیں کرتے بلکہ اپنی اہمیت کو بڑھانے اور پارٹی سربراہوں کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان کی خوشنودی کے مطابق رائے دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ادراک ہوتا تو سپریم کورٹ کے 17 مئی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دینی چاہیے تھی۔ اگر نظرثانی کی درخواست دائر ہوتی تو حمزہ شہباز ٹرسٹی وزیراعلیٰ نہ بنتے۔
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین نے ملک بھر میں اپنے حامیوں کو احتجاجی مہم چلانے کی ہدایت کی تھی دوسری جانب اتحادی حکمران جماعتوں نے بھی آگ سے کھیلنے کے لیے کمر کس لی جس سے واضح ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران مزید آگے بڑھ رہا ہے۔ وفاق اور پنجاب حکومت بھی غیریقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ اس سیاسی عدم استحکام کے مزید منفی اثرات ملک کو دیوالیہ پن کی طرف لے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے متوقع مالی معاونت پر اس ماحول کے سخت اثرات مرتب ہوں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان ہی ایسا ادارہ ہے جو ملک میں سیاسی استحکام لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے گرینڈ ڈائیلاگ کی ہدایت جاری کرتے ہوئے آئندہ الیکشن کا روڈ میپ دینے کی تجویز دے سکتا ہے‘ لیکن بڑی سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی اپنی منشا کے مطابق تشریح کرکے ملک میں بے چینی کی لہر پیدا کرتی ہیں اور ان کے میڈیا سیل اور بلاگرز نے ملک میں طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ ان بلاگرز کو مالی امداد جہاں سے مل رہی ہے اس سے قوم بے خبر ہے لیکن قومی اداروں کو تو بخوبی علم ہوگا۔ عمران خان صاحب کی تقاریر‘ انٹرویوز اور خطابات کا ریکارڈ بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے اور ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ بھی آنے والا ہے جبکہ توہینِ الیکشن کمیشن کے مقدمات بھی تیار ہو رہے ہیں‘ لہٰذا عمران حان اپنے اردگرد بلاگرز سے لاتعلقی اختیار کرکے قومی سلامتی پر دھیان دیں۔
17مئی کے فیصلے سے آئین کے آرٹیکل 63(اے) کی آئینی تشریح کے نام پر آئین کی شق کو ہی بدل دیا گیا جو پارلیمنٹ کا حق ہے اور قومی اسمبلی کے سپیکر بھی اس اہم آئینی تشریح کو قومی اسمبلی کے فلور پر نہیں روکتے جس سے ان کی بے حسی عیاں ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے جمہوری اقدار اور آئین اور پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کر دیا اور ان حالات میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جو بلاشبہ ملک کے مقبول ترین قومی رہنما ہیں وہ خود آگے بڑھیں اور تمام سٹیک ہولڈرز کی گول میز کانفرنس کا عندیہ دے کر قوم و ملک کے لیے ایسا انتخامی نظام وضع کریں جو انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرکے پاکستان کو فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کی طرف لے جائے۔ ملک کے ادارے سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکمران جماعت نے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ملک کے موجودہ سسٹم کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ پنجاب حکومت کی تبدیلی سے ملک شدید سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گا۔ اور خطرہ ہے کہ ان حالات میں تین نومبر 2007ء کی تاریخ نہ دہرائی جائے۔ مقتدر حلقوں کو ریاست کا مفاد مقدم ہے اور آئین کے آرٹیکل 5 (1) میں ریاست سے وفاداری اہم جزو ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما عدلیہ کے بارے جو ریمارکس دے رہے ہیں ان سے بھی موجودہ نظام خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہی نظرثانی کی اپیلیں زیر غور ہیں جبکہ قاسم سوری کی نااہلیت کا کیس بھی تین سال سے مؤخر ہے‘ اس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ممنوعہ فنڈنگ کیس بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کا فیصلہ بھی جلد ہی آنے والا ہے۔ ملک کے آئندہ کے سیاسی نظام کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا پنجاب حکومت کے حوالے سے فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں