"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب کی سیاست تقسیم

حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی میں شدت آنے پر ملک میں تین نومبر 2007ء والے حالات دہرائے جا سکتے ہیں۔ ادارے جنہیں صرف اور صرف ملک کی سالمیت اور مفاد عزیز ہے‘ اس وقت اطراف کے آتش فشانی بیانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ آئین پر گہری نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے ذریعے ریاست کا تحفظ بہر صورت یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ صدرِ مملکت نے حال ہی میں صحافیوں اور اینکرز کو ایوانِ صدر میں بلا کر جن خیالات کا اظہار کیا اس میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 239، 243، 245 اور دستورِ پاکستان کے شیڈول فورتھ ون ٹو کا ذکر کیا لیکن وہ آئین کے آرٹیکل 5(1) کو نظرانداز کر گئے۔ اس آرٹیکل میں بنیادی طور پر دو شقیں ہیں۔ پہلی شق کے مطابق مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے جبکہ دوسری شق میں لکھا ہے کہ دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ‘ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو (واجب التعمیل) ذمہ داری ہے۔
اتحادی جماعتوں کے وزرا ملک کو موجودہ سنگین بحران سے نکالنے کی کوئی راہ نہیں بتا رہے اور نان ایشوز پر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ بعض حلقے ملک کے حالات کی سنگینی کو اُجاگر کرنے کے بجائے عمران خان کا غروبِ آفتاب کو دیکھنے کا منظر دکھا رہے ہیں جبکہ میں پاکستان کی قومی سیاست میں پارلیمانی نظام کا سورج غروب ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ یہی دیکھ لیجئے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے کسی جج نے ججز کی تعیناتی پر چیف جسٹس آف پاکستان سے واضح اختلاف کرتے ہوئے خط لکھا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود‘ وزیر قانون‘ اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے رکن نے چیف جسٹس کی طرف سے پیش کیے گئے چار ججز کے نام مسترد کر دیے ہیں؛ تاہم جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جمعرات کو ہونے والے مذکورہ اجلاس کے بعد سپریم کورٹ کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے تجویز دی تھی کہ جن کے نام سپریم کورٹ میں بطور جج تعیناتی کے لیے پیش کیے گئے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے اجلاس کو مؤخر کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی اس تجویز سے ان کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن‘ جسٹس سجاد علی شاہ‘ جسٹس (ریٹائرڈ) سرمد جلال عثمانی اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بھی اتفاق کیا تھا؛ تاہم جسٹس طارق مسعود نے اپنے خط میں سپریم کورٹ کے پی آر او کی پریس ریلیز کو حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ترجمان جوڈیشل کمیشن کا ممبر ہے اور نہ ہی سیکرٹری ہے‘ تو حقائق کے برعکس پریس ریلیز کیسے جاری ہوئی؟ دوسری جانب یہ بھی خبریں گردش میں ہیں کہ حکومتی اتحاد میں عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کے لیے آئین میں اہم ترامیم کرنے کے حوالے سے غور و خوض کیا جا رہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ایک نیا سیاسی فلسفہ تیار ہو رہا ہے اور 1973ء کے آئین کو پسِ پشت ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہے ۔ قابلِ اعتماد حلقوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے تناظر میں سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے پر کام جاری ہے۔
اس مبہم ماحول میں مزید اضافہ آئین کے آرٹیکل (63 اے) کی ذیلی شق (2) میں پائے جانے والے ابہام کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس آرٹیکل میں واضح طور پر پارلیمانی لیڈر کے بجائے ممبر پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے۔ پارٹی سربراہ کو پارٹی ٹکٹ ایوارڈ کرنے کے اختیار میں بھی پارلیمانی پارٹی کے ممبر کے ماتحت کیا گیا ہے۔ چونکہ اب سیاسی پارٹیوں کے چیئرمین اپنے ماتحت پارلیمانی ممبرز کے زیرِ اثر آ گئے ہیں اس لیے پارلیمانی ممبر کے حکم کے تابع ہو کر انہیں پارٹی منشور‘ خارجہ پالیسی‘ داخلہ پالیسی اور غیرملکی دورے پر جانے سے پیشتر پارلیمانی ممبران سے اجازت لینا ہوگی۔ عدلیہ کی اس تشریح کے بعد پارٹی کا ہیڈ بظاہر بے اثر اور غیر فعال ہو کر رہ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد عمران خان کی سیاسی پوزیشن اگرچہ مستحکم ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان کی اکثریت کی آواز بن چکے ہیں اور ممکن ہے کہ اپنی پوزیشن کے بل بوتے وہ اداروں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کریں؛ تاہم اس سیاسی ماحول میں ایک اور تبدیلی‘ جسے مد نظر رکھنا چاہیے‘ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ چودھری شجاعت حسین کی منشا سے اُن دس ارکان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63اے کے تحت ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا سکتے ہیں جنہوں نے اگلے روز لاہور میں پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری جنرل اور صدر کو عہدوں سے ہٹا کر پارٹی کا پانچ رکنی الیکشن کمیشن بنانے کی منظوری دی۔ علاوہ ازیں‘ چونکہ پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر نے چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ کاسٹ کرنے کے فیصلے پر چودھری شجاعت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا ‘اس پر بھی ممکن ہے کہ پارلیمانی لیڈر کے خلاف ریفرنس بھیج دیا جائے ۔
ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ کیس کے فیصلے پر تحریک انصاف اگرچہ جشن منا رہی ہے مگر اسے ادراک ہونا چاہیے کہ عمران خان اگر کسی وقت پارلیمانی بحران کی زد میں آ گئے تو ان کے ارکانِ صوبائی اسمبلی ان کی ہدایت کو نظرانداز کرکے کسی کے اشارے پر ان کے خلاف جا سکتے ہیں اور عدالت کا یہ فیصلہ ان کو محفوظ راستہ فراہم کرے گا کہ پارلیمانی امور میں پارٹی کے سربراہ غیرفعال ہیں۔ ان حالات میں امکانی طور پروزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی انتظامی بیورو کریسی اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں بشمول پاکستان مسلم لیگ کے ارکان کے ساتھ ذاتی مراسم کو مضبوط کریں گے کیونکہ خبریں ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آ سکتی ہے۔ اگر قائم مقام سپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے توتحریک انصاف کے وہ ارکان‘ جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے‘ اس تحریک کی ووٹنگ کے دوران‘ جو خفیہ طور پر ہوتی ہے‘ اپنے ووٹ ضائع کرکے تحریک عدم اعتماد کو غیرفعال بھی بنا سکتے ہیں۔
بعض وفاقی وزرا نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی بات کی ہے تو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کا آئینی اختیار ضرور حاصل ہے لیکن اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 91کے تحت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس مشترکہ اجلاس کو طلب کرنے کی منظوری صدرِ مملکت ہی دیں گے۔ یہ بھی شنید ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت سے علیحدگی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ اب اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) وفاقی حکومت سے علیحدہ ہوتی ہے تو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی فوری طور پر پارلیمنٹ میں آ جائیں گے؛ اگرچہ اب 11 اراکین کا استعفیٰ منظور کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے؛ تاہم بدلتے حالات کو دیکھ کر 20 ارکان کا ناراض گروپ‘ جو قومی اسمبلی میں موجود ہے‘ اشارہ ملنے پر عمران خان کے ساتھ مل سکتا ہے اور یہ بھی بعید نہیں کہ آصف علی زرداری مفاہمت کے نام پر بنی گالا جا پہنچیں اور عمران خان کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارتِ خارجہ کی پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ بہرکیف سیاسی حالات اگر یونہی غیر مستحکم رہیں تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے اکتوبر‘ نومبر تک ملک میں عام انتخابات کرا دیے جائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں