"KDC" (space) message & send to 7575

ممنوعہ فنڈنگ فیصلہ ، آگے کیا ہو گا؟

گزشتہ روز فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف 2014ء سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بالواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز‘ جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں‘ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔سیکشن 204 کے سب سیکشن 4کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکٹھے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہو اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے جبکہ ممنوعہ فنڈز حاصل کرنے والی جماعت پر پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔الیکشن قوانین کے ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد آئین کے آرٹیکل 214کے تحت پی ٹی آئی کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا حق حاصل ہے۔ بعض ماہرین کی رائے میں تحریک انصاف نے آئین کے آرٹیکل 17کی خلاف ورزی کی ہے جس کے ممکنہ اثرات پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کی صورت میں بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ بادی النظر میں تحریک انصاف کے رہنما الیکشن کمیشن آف پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس ادارے کو زیر اثر لانا چاہ رہے تھے لیکن اس فیصلے سے ظاہر ہے کہ ایسے اقدامات کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی دباؤ میں نہیں آیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے سربراہ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 220(4) اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10کے تحت کارروائی کرنے کے لیے بھی ریکارڈ اکٹھا کر لیا تھا لیکن وسیع تر مفاد کے پیش نظر کارروائی سے گریز کیا گیا۔ عمران خان جیسے قومی لیڈر کو ایسی بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے اپنے تحفظات اور شکایات کو آئینی قواعد و ضوابط کے مطابق الیکشن کمیشن کے نوٹس میں لانا چاہیے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے اور قانونی ماہرین کو معاملات شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریفرنس کی بنیاد یہ بنائی جا رہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے حکومتی وفد سے ملاقات کی ہے۔ ریکارڈ کی درستی اور زمینی حقائق سے آگاہی کے لیے واضح ہونا چاہیے کہ الیکشن کے معاملات‘ حلقہ بندیوں‘ انتخابی فہرستوں کے بارے میں تحفظات اور بعض حلقوں میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سے اب تک متعدد سیاسی پارٹیاں‘ سول سوسائٹی کے نمائندے اور غیر جانبدار شخصیات مل چکی ہیں اور الیکشن کمیشن میں پارلیمنٹ کے نمائندے اُن سے ملاقات کے لیے اکثر آتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں اب تک سب سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق وزرا اور رہنما چیف الیکشن کمشنر سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ چند روز پیشتر تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر اور اُن سے پہلے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ عمران خان کے دورِ حکومت میں شیخ رشید احمد اور سیف اللہ نیازی بھی اکثر چیف الیکشن کمشنر سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
دراصل چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ انتظامی طور پر بڑا نمایاں ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن میں بھی ایسی ہی روایات پائی جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی روایات اور غیرجانبداری کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بھارتی چیف الیکشن کمشنر کسی حکومتی عہدیدار یعنی وزیراعظم سے ملاقات نہیں کر سکتا لیکن گاہے گاہے اپنی کارکردگی کے حوالے سے بریف کرنے کیلئے بھارتی صدرِ مملکت سے الیکشن کمیشن کے ممبران کے ہمراہ ملاقات کر سکتا ہے۔ بھارت کے ایک دورے کے دوران مجھے بھارتی چیف الیکشن کمشنر نے بتایا تھا کہ ان کے ایک چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کے اراکین سے مشاورت کیے بغیر بھارت کے وزیراعظم سے ملاقات کرنا چاہی تو دیگر اراکین نے اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی تھی اور بعد ازاں بھارتی صدرِ مملکت کی مداخلت سے یہ معاملہ ختم کرایا گیا۔ پاکستان میں بھی ماضی میں اس طرح کی شاندار روایات موجود ہیں۔ 1980ء کے بعد ضیا الحق بطور صدرِ مملکت الیکشن کمیشن آف پاکستان جاتے رہے اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس ایس اے نصرت سے ملتے رہے۔ صدر غلام اسحاق خان اور قائم مقام صدر وسیم سجاد بھی الیکشن کمیشن جاتے رہے اور انتخابی امور پر تبادلہ خیال کرتے رہے۔ صدر رفیق تارڑ چونکہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالقیوم چوہدری کے دوست تھے‘ وہ ان کو ایوانِ صدر میں کافی اور چائے پر ذاتی حیثیت میں مدعو کرتے تھے‘ البتہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں ان کو دلچسپی نہیں تھی۔
اگرچہ موجودہ اتحادی حکومت کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی تھی لیکن اُس ملاقات میں چاروں اراکینِ الیکشن کمیشن‘ سیکرٹری الیکشن کمیشن اور دیگر سینئر حکام بھی موجود تھے۔ اس لیے اتحادی حکومت کے نمائندوں کی چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات پر تحریک انصاف کے چیئرمین کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خود عمران خان متعدد مرتبہ اپنے ایک قریبی دوست جو انتہائی اہم عہدے پر فائز ہیں‘ کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر سے علیحدگی میں ملاقات کیلئے دباؤ ڈال چکے ہیں۔ اس شخصیت نے عمران خان سے ان کے لاہور والے گھر میں ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں اُس شخصیت نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کے دوران عمران خان کی اُن سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر کا منصب ایسی ملاقاتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر وہ ملاقات کے اتنے ہی خواہش مند ہیں تو ان کے سیکرٹریٹ میں اراکینِ الیکشن کمیشن کی موجودگی میں اُن سے ملاقات کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کے دوست اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے اس بابت انہیں خوف زدہ کرتے رہے۔
شاید عمران خان صاحب خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کی جماعت آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 212‘ 213 اور 214 کی زد میں نہ آ جائے۔ جہاں تک ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے اور اختیارات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی حیثیت سفارشات تک محدود ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر ممنوعہ فنڈنگ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کے تحت ضبط کرنے کے احکامات دیے جاتے ہیں تو تحریک انصاف اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کر سکتی ہے۔ اب جبکہ نظامِ انصاف خاصا متحرک ہے تو ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف جلد ہی کوئی فیصلہ سنا دیا جائے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے میں دی جانے والی سفارشات کیا رُخ اختیار کرتی ہیں۔ اگر وفاقی حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارشات کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھجواتی ہے تو تحریک انصاف دباؤ میں آ جائے گی اور اپنی بقا کی خاطر آئینی و قانونی جنگ لڑے گی۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں