"KDC" (space) message & send to 7575

منفی پروپیگنڈا مہم بند ہونی چاہیے

بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے امدادی سرگرمیوں میں مصروف پاک فوج کے پانچ افسران اور ایک جوان ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت کے رتبے پر فا ئز ہو گئے لیکن سوشل میڈیا پر اس حادثے کے حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا گیا‘ پاکستان کے ہر باشعور شہری نے اس پر بجا طور پر دکھ کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک مخصوص ٹولے کی جانب سے ہیلی کاپٹر حادثے کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کا سلسلہ کسی روک ٹوک کے بغیر تین‘ چار روز تک جاری رہا۔ اس مہم اور ملکی سلامتی کے لیے سنگین خطرات کو جنم دینے والی اس روش کو عملاً ملک دشمنی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ یہ عذر کہ یہ مذموم مہم کسی جماعت کے بعض نوعمر اور جذباتی حامیوں نے چلائی تھی‘ جو اس کی سنگینی کا ادراک نہیں رکھتے تھے‘ اس وجہ سے قابلِ قبول نہیں کہ چار روز تک اس جماعت کی قیادت نے نہ تو یہ ٹرولنگ روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ بالآخر پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے اس مذموم طرزِ عمل کی بھرپور مذمت کے بعد یہ سلسلہ کسی حد تک تھما۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے جو غلط قسم کا پروپیگنڈا کیا‘ وہ انتہائی تکلیف دہ ہے‘ بے حسی کا یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے اور ہر سطح پر اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔
دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے حکمران اتحاد کی جانب سے جمع کرائے گئے ایک ریفرنس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ہے جس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربرا ہی میں چاروں اراکینِ الیکشن کمیشن کریں گے۔ یہ ریفرنس آئین کے آرٹیکل 62 کی ذیلی شق 2 کے تحت بھجوایا گیا ہے اور الیکشن کمیشن کے نزدیک آئینی لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں یہ دوسرا ریفرنس ہے۔ پہلا ریفرنس غالباً 2006ء میں سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین نے متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے جمع کرائے گئے ایک ریفرنس کے بعد خان صاحب کے خلاف ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بھجوایا تھا جسے الیکشن کمیشن نے تکنیکی بنیاد پر خارج کر دیا تھا۔ اب دوسری بار ان کے خلاف جو ریفرنس بھجوایا گیا ہے اس کا فیصلہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کو 90 روز کے اندر اندر کرنا ہو گا۔ ریفرنس میں عمران خان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے توشہ خانہ کے تحائف کا اندراج اپنے سالانہ گوشواروں میں نہیں کیا جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 137 کی خلاف ورزی ہے۔ اس ریفرنس کے حوالے سے الیکشن کمیشن آ ف پاکستان میں خان صاحب کی جانب سے 2019ء‘ 2020ء اور 2021ء میں جمع کرائے گئے سالانہ گوشواروں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے اور اس امر کا قانون کے مطا بق جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ان گوشواروں میں توشہ خانہ کے اثاثے درج کیے گئے ہیں یا نہیں۔ اگر عمران خان کی طرف سے اپنے سالانہ گوشواروں میں ان اثاثوں کو خفیہ رکھا گیا ہے تو یہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 137 کی ذیلی شق 4 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر خان صاحب نے اپنے سالانہ گوشوارے میں توشہ خانے سے حاصل شدہ اثاثے ظاہر نہ کیے تو الیکشن کمیشن اُن کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 73‘ 174اور 183 کے تحت کارروائی کر سکتا ہے۔ ریفرنس کے مطابق خان صاحب نے الیکشن کمیشن کے پاس 2019ء کا جو گوشوارہ داخل کیا تھا‘ اس میں انہوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان سے ملنے والی قیمتی گھڑی کی مالیت ظاہر نہیں کی تھی جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 137 کے تحت جرم ہے۔ اگرچہ ریفرنس میں عمران خان کو تاحیات نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے لیکن میری رائے کے مطابق اس کیس میں خان صاحب پر آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف لاگو نہیں ہوتا۔
اس ساری صورتحال سے قطع نظر‘ عمران خان نے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں سے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 223 کی ذیلی شق 2 کے تحت ان پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے‘ لیکن ان کے الیکشن لڑنے پر قومی خزانے کے کروڑ وں روپے خرچ ہو جائیں گے۔ عمران خان نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ وہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی نشست سے مستعفی ہو جائیں گے۔ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا عمران خان اپنی پارٹی کے کسی رہنما کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ ان حلقوں سے انتخاب میں حصہ لے؟ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت خان صاحب کے اردگرد ایسے مختلف الخیال دانشوروں کا غلبہ ہے جو اُ ن کو درست سیاسی مشورے نہیں دیتے اور حالات کی سنگینی سے بھی آگاہ نہیں رکھتے۔ کچھ غیرملکی سہولت کاروں نے تحریک انصاف کو ریاستی اداروں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جس پر خان صاحب بہت بے چین ہیں۔ ان حالات میں انہیں چاہیے کہ وہ چودھری پرویز الٰہی جیسے مدبر سیاستدانوں سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنی پارٹی میں موجود نظریاتی لوگوں بالخصوص عمر سرفراز چیمہ‘ اسد عمر‘ شبلی فراز‘ اعجاز چودھری اور دیگر محب وطن سیاسی سوچ کی حامل شخصیات کو آگے لائیں اور ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر ٹرولرز سے لاتعلقی کا اظہار کریں کیونکہ ریاستی اداروں کے خلاف منفی سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کے خلاف ملکی آئین حرکت میں آ چکا ہے اور ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ان لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے جا رہا ہے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن کے تحت اگر کوئی سیاسی جماعت درپردہ ان لوگوںکی معاونت کرتی ہوئی پائی گئی تو وفاقی حکومت اس پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 کے تحت الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیج سکتی ہے۔ پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بجائے اگر پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ ہو جاتی ہے تو متاثرہ پارٹی کے تمام اراکین آزاد اراکین کی حیثیت سے اپنی نئی راہ متعین کر سکتے ہیں۔
جہاں تک ممنوعہ فنڈنگ کیس کا تعلق ہے تو معروضی حالات سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ عمران خان ممنوعہ فنڈنگ کیس کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور اُن کے دیرینہ دوست بھی اُن کے خلاف چارج شیٹ جاری کرنے کیلئے تیار ہو چکے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ آنے پر ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایف آئی اے نے تحریک انصاف کے بعض سینئر رہنماؤں کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے طلب کر لیا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت ہونے پر تحریک انصاف بشمول عمران خان کو لاتعداد قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ بہرحال سپریم کورٹ کے پاس جانا ہے لہٰذا خان صاحب کو چاہیے کہ احتجاجی تحریک کے بجائے اپنا مقدمہ خود عدالت میں لے جائیں۔ پی ٹی آئی کی جن شخصیات کو ایف آئی اے نے طلب کیا ہے‘میرے خیال میں حالات کی نزاکت کے پیش نظر وہ پارٹی پالیسی کے برعکس بھی جا سکتی ہیں کیونکہ وہ شخصیات بخوبی آگاہ ہیں کہ ان کے مفادات عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر ہی محفوظ ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں