"KDC" (space) message & send to 7575

مسلم لیگ (پی)‘ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل

گزشتہ ہفتے میری صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوانِ صدر میں ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے فارن فنڈنگ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فارن فنڈنگ کا مکمل حساب کتاب کا طریقہ کار اُنہوں نے وضع کیا تھا اور اس کیلئے باقاعدہ رجسٹر اور رسیدیں دینے کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اُنہوں نے اسد قیصر اور سیما ضیا کو بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنے کا کہا تھا۔ امریکی قانون کے مطابق فنڈنگ کیلئے کمپنی بنانا ہوتی ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا سے ان کمپنیوں کے ذریعے ہی فنڈنگ بینکوں میں آتی رہی۔ اکبر ایس بابر نے بعض ای میلز میں انہی کمپنیوں کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال اب الیکشن کمیشن اپنے فیصلے میں سب کچھ بتا چکا ہے اور اس کیلئے عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ صدرِ مملکت کا کہنا تھا کہ جب تک وہ سیکرٹری جنرل رہے‘ فارن اور اندرونی فنڈنگ کا حساب کتاب شفاف طریقہ سے ہوتا رہا اور بعد ازاں پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن جس انداز میں ہوئے اور 35 لاکھ کے قریب تحریک انصاف کے ووٹرز نے چار سو کے لگ بھگ کونسلر منتخب کیے‘ وہ بھی پاکستانی کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہے اور جسٹس وجیہ الدین کی رپورٹ میں یہ سب کچھ درج ہے۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی روشنی میں ممنوعہ فنڈنگ بحق سرکار ضبط کرنے سے پہلے دفعہ 204 کے تحت نوٹس جاری کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سیکشن 210 کے مطابق انہوں نے جو سرٹیفکیٹ دستاویزات کے ساتھ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا تھا‘ اسے الیکشن کمیشن نے غلط قرار دیا ہے۔ پارٹی لیڈر کو سیکشن 210 کے مطابق فارم ڈی پر تصدیقی سرٹیفکیٹ الیکشن ایکٹ 2017ء کے رولز 159 کے مطابق جمع کرانا ہوتے ہیں اور اس میں پارٹی لیڈر باقاعدہ اقرار اور تصدیق کرتا ہے کہ پارٹی نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل نہیں کی۔تحریک انصاف کے چیئرمین برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے ان کو آگاہ نہیں کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ فنڈز حاصل ہوتے رہے۔ سپریم کورٹ حنیف عباسی کیس میں یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ پارٹی فنڈز کے بارے میں جو سرٹیفکیٹ پارٹی لیڈر فراہم کرے گا‘ اس کے صحیح یا غلط کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی نے کرنا ہے۔ اگر سرٹیفکیٹ میں غلط بیانی ثابت ہوئی تو الیکشن کمیشن اس بنیاد پر پارٹی چیئرمین کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈز کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بعد پارٹی کی رجسٹریشن اور انتخابی نشان کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے آئینی طور پر اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ تحریک انصاف نے آئین کے آرٹیکل 17 کی ذیلی شق تین کی خلاف ورزی کی ہے اور پارٹی اپنے ذرائع وسائل بتانے میں ناکام رہی ہے۔ اب جو پارٹی آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی کرے تو پھر وفاقی حکومت پر ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ اس سے متعلق قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو اپنا فیصلہ فارورڈ کر دیا ہے‘ اب وفاقی حکومت کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 کے تحت فیصلہ کرنا ہو گا۔
فارن فنڈنگ کیس کا آٹھ سال تک التوا اور اس کیس میں جو ریلیف ملتا رہا‘ اس کی پشت پر کئی پراسرار حکایتیں ہیں جو مناسب موقع پر افشا ہوتی رہیں گی۔ اگر تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں اس کیس کو آگے چلنے دیتی تو معاملہ ان کی حکومت کے دور میں منطقی انجام کو پہنچ جاتا لیکن خان صاحب کے بعض پارٹی رہنما ان سے حقائق پوشیدہ رکھتے رہے اور ان کے وکلا نے بھی اس کیس کے مضمرات سے انہیں آگاہ نہیں کیا۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے سپیکر نے توشہ خانہ کا کیس بھی آرٹیکل 63 (اے) کے تحت بھیج دیا ہے اوراس کی قانونی حیثیت کے مطابق ہی الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے۔ عمران خان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 137 کے تحت جو گوشوارے 2019ء سے 2021ء تک جمع کرائے‘ ان کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ اگر ان کے کاغذات میں ان کا ذکر نہیں ہے تو پھر عمران خان کو الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنا ہو گا۔
سیاسی حالات کی ایک تازہ خبر یہ ہے کہ پنجاب کی سیاست میں پُراسرار سائے حرکت میں آ چکے ہیں۔مبینہ طور پر چودھری شجاعت حسین کی پاکستان مسلم لیگ کے مقابل مسلم لیگ (پاکستان) کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کرانے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی متعلقہ دفعات 201، 202 اور 203 کیساتھ ساتھ دفعہ 209 کی قانونی کارروائی مکمل کرانے کے بعد نئی سیاسی جماعت بنانے کی متعلقہ دستاویزات بھی جمع کرا دی گئی ہیں اور سیکشن 202 کے تحت قانونی طور پر ممبر شپ فیس بھی جمع کرانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے صدر نے بغیر تاریخ کے اندراج کے جون کے آخری ہفتے میں کاغذات الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جس پر الیکشن کمیشن نے قانونی اعتراضات کے باعث 4 جولائی کو جواب طلب کیا۔ اگر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 200، 201، 202 اور 203 کو مدنظر رکھا جائے تو مسلم لیگ پاکستان کے نام سے کسی نئی پارٹی کی رجسٹریشن کا جواز نہیں بنتا۔ ایک پارٹی کے نام سے مشابہت کے باوجود اس کی رجسٹریشن سوالیہ نشان بنتی جا رہی ہے۔ شنید ہے کہ اگلے عام انتخابات سے قبل اس مسلم لیگ (پی) کی قیادت پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت سنبھال سکتی ہے اور اگلے عام انتخابا ت میں یہ جماعت پی ٹی آئی کی اتحادی کے طور پر اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ اپنے امیدوار میدان میں اتارے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں اگر تحریک انصاف توقعات پر پورا نہیں اترتی تو اس کے ناراض اراکین اس جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کی جماعت کے مایوس اراکین بھی اس کا رخ کر سکتے ہیں۔ فی الوقت الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 209 کے تحت اس نوزائیدہ پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن بھی کرا لیے گئے ہیں اور اس کی لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن ان کے کوائف کی جانچ پڑتال کر رہا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے تحت ایک فرد ایک ہی سیاسی جماعت کا ممبر بن سکتا ہے اور اپنی پارٹی سے وفاداری ترک کر کے کسی دوسری جماعت میں شریک ہونے کیلئے اس کو اپنی پہلی پارٹی سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ جماعت پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل دیکھتے ہوئے اس پارٹی کے متبادل کے طور پر بنائی گئی ہو کہ اگر تحریک انصاف قانون کی شق 215 کی زد میں آتی ہے تو پی ٹی آئی ممبران کی بھاری اکثریت اس جماعت کا حصہ بن جائے۔
سیاست کے میدان میں جو کھیل مستقبل قریب میں کھیلا جا رہا ہے‘ چوہدری پرویز الٰہی نے اس میں اپنی نئی سیاسی بساط بچھا لی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی جہاندیدہ سیاستدان ہیں، پنجاب میں ان کی انتظامی صلاحیت کے سب ہی قدردان ہیں لیکن مجھے حیرانی ہوئی کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر پر تنقید کر کے عمران خان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے پس پردہ شاید الیکشن کمیشن کا وہ اقدام ہے جس میں کامل علی آغا کی درخواست‘ جس میں چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی کی سربراہی سے محروم کرنے کا ریفرنس تھا‘ الیکشن کمیشن نے مسترد کر کے چوہدری شجاعت حسین کے موقف کو تسلیم کر لیا۔ کوئی شک نہیں کہ قوم اس مفاد پرستانہ سیاست سے عاجز آ چکی ہے۔ خودغرضی پر مبنی سیاست سے عوام کا سیاسی نظامِ حکومت سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ اب کسی ایسے نجات دہندہ کی تلاش میں ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر کھڑا کر دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں