"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کے اختیارات

وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں الزام لگایا کہ لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد قومی اداروں کے خلاف مہم ایک سیاسی جماعت اوربیرونی ممالک کا مشترکہ پروجیکٹ تھا۔ وزیردفاع نے کہا کہ تمام تر ڈیٹا تصدیق شدہ ہے‘ آنے والے دنوں میں اس سلسلے میں مزید انکشافات کئے جائیں گے۔ دفاعی اداروں کا وجود ملک کی بقا اور سالمیت سے جڑا ہوتا ہے؛چنانچہ وزیر دفاع کے اس بیان کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ مبینہ طور پرپاکستان سے 529‘ بھارت سے 18 اور دیگر ممالک سے 133 سوشل میڈیااکاؤنٹس مختلف ناموں سے چلائے گئے۔ یہ تحقیقات آہستہ آہستہ اپنے نتائج کی جانب بڑھ رہی ہیں۔بہرکیف حکومت پاکستان کے اہم ترین وزیر نے تحریک انصاف کی قیادت پر جو سنگین الزامات لگائے ہیں اس پر وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے خلاف ریفرنس بھی بھجوا سکتی تھی‘ مگر وفاقی حکومت نے سیاسی سکورنگ کرتے ہوئے الزام تراشی سے قوم میں مایوسی کی لہر دوڑا دی۔ ان الزامات کو بنیاد بنا کر سپیکر قومی اسمبلی کی وساطت سے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا جانا چاہیے تھا۔تاہم خواجہ آصف اگر مستند ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے تو الیکشن کمیشن ان کو آئین کے آرٹیکل 63 (1) ایف کے تحت تاحیات نااہل بھی قرار دے سکتا ہے۔ تحریک انصاف ملک کی وفاقی سیاسی جماعت ہے اور اسی وقت پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اس کے ہم پلّہ نہیں‘ لہٰذا وزیر دفاع کے الزامات کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کو کرناچاہیے۔
ملک میں قانون کی بالادستی کا تصور دیومالائی کہانیوں ہی میں ملتا ہے۔ سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد کے ازخود نوٹس میں جو فیصلہ دیا تھا وہ پارلیمانی تاریخ کا منفرد اور اہم فیصلہ تھا مگر سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے برعکس اس وقت کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا اقدام آئین کی خلاف ورزی بلکہ سبوتاژ کرنے کے مترادف تھا۔اس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر اپنے تفصیلی اور تحریری فیصلے میں سپیکر‘ وزیراعظم اور صدر مملکت کو اس میں شریک قرار دیا اور سپریم کورٹ کے فاضل بینچ کے ایک معزز رکن نے اس اقدام کو آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت قابلِ تعزیر قرار دیا۔ فیصلے کی روشنی میں مقدمہ درج کرنے کے لیے کابینہ نے وزیر قانون و انصاف کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی مقرر کی لیکن آج تک اس کمیٹی کا اجلاس نہیں ہو سکا۔اس طرح وفاقی حکومت نے اہم ترین فیصلے کو مصلحتوں کی نذر کر دیا۔ تاہم فارن فنڈنگ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے پانچ اہم رہنماؤں کو ایف آئی اے کی جانب سے طلبی کے نوٹس بھی بھیجے گئے ہیں۔دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں تحریک انصاف نے جو اپیل دائر کر رکھی ہے‘ جس کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے‘اس میں اکبر ایس بابر نے فریق بننے کی درخواست دائر کر دی ہے۔ بادی النظر میں اکبر ایس بابر کے فریق بننے کے بعد حالات کا رُخ تبدیل ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اپنی حکمت عملی کے تحت فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے تحریری جواب میں کہا ہے کہ وہ ان کے سامنے جوابدہ نہیں۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے اختیارات کو بھی چیلنج کیا ہے۔اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کا تعین ہو گا۔ الیکشن کمیشن نے سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس میں تحریک انصاف کے وکلا کو آج یعنی 22 اگست تک جوابات داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اختیارات کی جنگ میں الیکشن کمیشن کو کامیابی حاصل ہو گی کیونکہ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 213 سے 225 تک وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ اسے عدالتی اور انتظامی اختیارات بھی حاصل ہیں اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 9 کے تحت اس کو ٹریبونل کے اختیارات بھی۔ الیکشن کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے متعلقہ چیف جسٹس کی مشاورت سے الیکشن ٹریبونل بنانے کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ جو مد نظر رہنا چاہے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے دو اگست کو ممنوعہ فنڈنگ کے ضمن میں جو فیصلہ جاری کیا تھا اسی کو رپورٹ کے زمرے میں لانا قانونی طور پر درست نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کے تحت ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہیں‘ الیکشن کمیشن نے سیکشن 212 کے تحت وفاقی حکومت کو ریفرنس بھی بھجوایا ہے جس کے تحت وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔الیکشن کمیشن نے سیکشن 210کی خلاف ورزی کرنے پر حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے معاملے میں عمران خان کو نوٹس بھی بھجوایا ہے۔عمران خان کے قانونی ماہرین نے باور کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو عدالتی اختیارات حاصل نہیں مگر یاد رہے کہ اسی الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 64 (1) ایف کا سہارا لیا تھا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کو توہینِ عدالت کے بھی وہی اختیارات ہیں جو ہائیکورٹ کے جج کے ہوتے ہیں اور آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت الیکشن کمیشن نے فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو توہینِ عدالت کے نوٹس بھجوائے تھے اور جب شوکاز نوٹس کا وقت آیا تو فواد چوہدری اور اعظم سواتی نے معذرت پیش کر دی جبکہ 2017ء اور 2018ء میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے عمران خان صاحب کو توہینِ عدالت کے نوٹس بھجوائے اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق دونوں مرتبہ خان صاحب نے تحریری طور پر الیکشن کمیشن سے معافی مانگی جبکہ ایک مرتبہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے الیکشن کمیشن کی حکم عدولی پر عمران خان کو ہتھکڑی لگا کر پیش کرنے کا حکم دیا اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کو احکامات بھجوائے۔
عمران خان نو حلقوں میں ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘آٹھ حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے ہیں جبکہ فیصل آباد کے حلقہ این اے 108 سے ان کے کاغذات رسمی طور پر مسترد ہوئے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ الیکشن ٹریبونل ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لے گا۔ اسی طرح عمران خان کے نو حلقوں میں کامیابی کے روشن امکانات ہیں اور ان حلقوں میں کامیابی کے بعد عمران خان ملکی سطح پر کامیاب ترین سیاستدان کی حیثیت سے سامنے آئیں گے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو سیاسی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اتحادی حکومت نے عمران خان کے مقابلے میں جن امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں وہ اپنے حلقوں میں غیر مقبول ہیں۔اتحادی جماعتیں حکومتی سطح پرہر طرح کے فوائد سے لطف اندوز ہو رہی ہیں مگر عوام کو ان تک رسائی حاصل نہیں۔ اتحادی حکومت نے ابھی تک عمران خان کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نہیں بھجوایا اور شہباز گل کے معاملے کو بھی حکومت نے صحیح طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔ شہباز گل کے معاملے میں پرویز الٰہی کی پوزیشن عثمان بزدار کی سطح پر نظر آئی جب وفاق اور پنجاب کی پولیس آمنے سامنے آگئیں۔ اس وقت چوہدری پرویز الٰہی کو شہباز گل کو عدالتی حکم کے تحت اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دینا چاہیے تھا مگر عمران خان کے حوالے سے خبریں چل رہی تھیں کہ انہوں نے پنجاب پولیس کو حکم دیا کہ شہباز گل کو اسلام آباد پولیس کے حوالے نہ کیا جائے۔پرویز الٰہی صاحب کو اسی وقت کارروائی کرتے ہوئے تردید یا وضاحت کرنی چاہیے تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں