"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان قانون کی زد میں

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے میں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض سابق وزیراعظم‘ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔ دفعہ 144کے مقدمے میں بھی خان صاحب کی ضمانت منظور ہو چکی ہے‘ لیکن عمران خان بلاوجہ توہینِ عدالت کیس کی زد میں بھی ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام ججز کی مشاورت سے خان صاحب کی طرف سے خاتون مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے پر اتفاق کے بعد لارجر بنچ تشکیل دیا ہے ۔ توہین عدالت کے مقدمے میں سزا کا نتیجہ پانچ سال کی نااہلی ہو تا ہے جیسا کہ ماضی میں یوسف رضا گیلانی‘طلال چوہدری‘ دانیال عزیز اور نہال ہاشمی کو توہین عدالت کیس میں پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔
سینیٹر شبلی فراز آج کل عمران خان کے بہت نزدیک ہیں جنہیں خان صاحب نے اپنا چیف آف سٹاف مقرر کر لیا ہے‘ اب بنی گالا میں گرم ہوا کے بجائے ٹھنڈی ہوا کا دور آ جائے گا اور مقتدر حلقوں سے بھی ان کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی مقتدر حلقوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں لیکن شہباز گل کے معاملے میں عمران خان جو پوزیشن لے چکے ہیں اس سے معاملات کو سنبھالنے میں دقت پیش آ سکتی ہے۔ یہی شہباز گل جب عثمان بزدار کی پہلی کابینہ میں ان کے معاونِ خصوصی تھے تو چند مہینوں میں ہی عثمان بزدار نے وزیراعظم عمران خان کے مشورے سے شہباز گل کو برطرف کر دیا تھا۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے‘ اس کے بعد وزیراعظم ہاؤس تک شہباز گل کی رسائی ناممکن تھی لیکن جب نعیم الحق کینسر کی آخری سٹیج پر تھے تو شہباز گل نے ان کی خدمت اور تیمارداری کی خاطر ان کے ساتھ والے کمرے میں بستر لگا لیا اور جب وزیراعظم عمران خان نے نعیم الحق کی آخری بار عیادت کی تو نعیم الحق نے شہباز گل کا ہاتھ عمران خان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے ان کو مناسب ملازمت دینے کی درخواست کی تھی۔ مرحوم نعیم الحق نے اپنے آخری وقت میں مجھے بہت کچھ بتایا تھا اور میں نے ان کی رحلت پر کالم میں اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے گرد ایسے لوگ جمع کر لیے ہیں جو موقع ملتے ہی انہیں نقصان پہنچاتے رہیں گے۔ مرحوم نعیم الحق ممنوعہ فنڈنگ کے مضمرات سے بھی بخوبی واقف تھے اور میرے نقطہ نظر سے متفق تھے۔ رحلت سے کچھ دن پہلے وہ وزیراعظم عمران خان سے میری ملاقات کرانا چاہتے تھے تاکہ ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے انہیں بریف کردوں۔ نعیم الحق نے بتایا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے ایک مشیر اُن کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں غلط بریف کرکے نااہل کروانا چاہتے ہیں۔ بہرحال اب چونکہ شبلی فراز نے اہم پوزیشن حاصل کر لی ہے تو وہ اسد عمر کے ساتھ مل کر عمران خان کو مشکوک ایجنڈے پر چلنے والے اُن مشیروں سے الگ تھلگ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں گے اور اداروں کے ساتھ اعتماد کی فضا بھی بحال ہو جائے گی۔
عمران خان کے وکلا فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ ریفرنس میں حسبِ روایت جواب داخل کرانے کے بجائے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تاریخیں لینے پر اکتفا کر رہے ہیں جو ان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ اگرچہ ممنوعہ فنڈنگ کیس بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن 30اگست سے توہینِ الیکشن کمیشن کا کیس بھی شروع ہو رہا ہے جس کا منطقی انجام بھی پانچ سال کی نااہلی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اگر اس کیس کے نوٹسز کے متن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہ کیس مضبوط ہے۔ ان کیسز میں عمران خان کے دوست اور قانونی ماہرین اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر انہیں متضاد مشورے دے رہے ہیں۔ خان صاحب کوچاہیے کہ وہ اس سلسلے میں نعیم بخاری‘ احمد اویس‘ حامد خان اور ایسے ہی دیگر قانونی ماہرین سے مشاورت کریں جن کے کوئی سیاسی مفادات نہ ہوں اور وہ اپنی پیشہ وارانہ رائے سے کیس کو آگے لے کر جائیں۔ شنید ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے سلسلے میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی مقدمات کی زد میں آ سکتے ہیں کیونکہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ ایف آئی اے کو صدر عارف علوی کا اکاؤنٹ بھی مل چکا ہے جس کا انہوں نے بطور ممبر قومی اسمبلی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مجوزہ اثاثہ جات کے فارموں میں ذکر نہیں کیا‘ جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 137 کے تحت لازمی اہم دستاویزات کا حصہ ہے۔ دوسری جانب اب اکبر ایس بابر کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ان کے پاس تحریک انصاف کی اہم شخصیات سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے کافی مواد موجود ہے۔ محسن بیگ‘ جو ملک کے ممتاز صحافی ہیں‘ بھی ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں اہم معلومات رکھتے ہیں اور مناسب وقت پر ثبوتوں کے ہمراہ الیکشن کمیشن میں پیش کر سکتے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایسے گیارہ اکاؤنٹس کی نشاندہی سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کی تھی جس سے تحریک انصاف نے لاتعلقی کا اظہار کرکے ان مشکوک شخصیات کے گرد گھیرا تنگ کروایا جن کے اکائونٹس میں‘ بقول اکبر ایس بابر ‘پارٹی فنڈ کے 35کروڑ روپے آئے اور انہوں نے عمران خان کو ان رقوم کے بارے میں اندھیرے میں رکھا۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع سے یہ معلومات شیئر کی جا رہی ہیں کہ دو آف شور کمپنیوں کی طرف سے فارن فنڈنگ کے 78کروڑ روپے جس اکاؤنٹ میں موصول ہوئے‘ وہ اکاؤنٹ تحریک انصاف کے مرکزی عہدیدار کی منظوری سے کھلا جس کی مکمل تفصیل ایف آئی اے کو موصول ہو چکی ہے۔ جس اہم شخصیت کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ عمران خان اور ان کے اہم دوستوں کے بہت قریب ہیں اور ممنوعہ فنڈنگ کا تمام ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے۔
عمران خان کو غلط مشورے دینے والی مخصوص لابی نہ تو ان کی خیر خواہ ہے اور نہ ہی ملک کی۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب نااہلیت کے مقدمات کی زد میں ہیں اور ان کا مستقبل اُن سیاستدانوں جیسا نظر آنے لگا ہے جو اپنی منزل اپنی اَنا‘ ضد‘ ہٹ دھرمی اور خوش فہمی کی وجہ سے کھو بیٹھے تھے۔ خان صاحب جس راستے پر چل نکلے ہیں اس کے آخری سرے پر کوئی منزل نہیں۔ انہیں چاہیے کہ اب ملکی صورتحال کے مطابق اپنی اگلی منزل کی طرف بڑھیں۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی موجودہ ٹیم پر نظر ثانی کریں اور اپنی پارٹی کے اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی سے ایسے افراد کو آگے لائیں جو ان کو اس سیاسی بحران سے نکالنے میں ان کے ممد و معاون ثابت ہوں۔ سیاسی جلسے جلوسوں سے انہوں نے نوجوانوں میں سیاسی شعور تو اجاگر کر دیا ہے لیکن اب اس شعور کو ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کریں۔
سیاسی عدم استحکام سے پاکستان اقتصادی اور سماجی لحاظ سے شدید تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان کے دانشور طبقے کو آگے بڑھتے ہوئے ملک کی اتحادی حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کے مابین رابطے قائم کرکے نئے انتخابات کے لیے فضا کو خوشگوار بنانا چاہیے‘ ساتھ ہی ہمارے نوجوان طبقے میں پائی جانے والی نفرت کو کم کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس وقت نوجوانوں میں سیاسی جماعتوں کے لیے جو نفرت پائی جاتی ہے وہ پاکستان کو مزید سیاسی اور اقتصادی تنزلی کی طرف لے کر جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں