"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان کے رابطے بحال؟

وطنِ عزیزاب خودساختہ بحرانوں سے باہر نکلتا نظر آ رہا ہے۔ریاستی امور کبھی رکا نہیں کرتے‘ ان کو تو بہرصورت مکمل ہونا ہی ہوتا ہے لیکن وہ شخصیات جو نہایت سنجیدہ‘ متین‘ ذمہ دار اور محبِ وطن ہوں ان کے میدانِ عمل میں آنے سے ریاستی امور کی انجام دہی مزید آسان ہو جاتی ہے۔ ملکی منظر نامے پر بھی اب ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کے پس پردہ کوئی بیرونی مداخلت نہیں تھی‘ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری کی گفتگو کو تحریک انصاف کی قیادت نے غلط پیرائے میں پیش کیا جبکہ اصل صورت حال اس سے مختلف تھی۔ خان صاحب کو جب تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کار کے مطابق اقتدار سے ہٹایا گیا اور 13جماعتی اتحاد بر سر اقتدار آیا تو خان صاحب نے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نام نہاد امریکی مراسلے اور بیرونی سازش کے بیانیے کا سہارا لیا۔ایک ایسے سفارتی مراسلے کو بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا رہا جسے سفارتی محاذ پر معمول کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔اس دوران امریکی مقتدر حلقے عمران خان کے بیانیے سے قطعی لاتعلق رہے کیونکہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پنٹاگان میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے ریمارکس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پاکستان کے امریکہ میں متعین سفیر کے ساتھ اسسٹنٹ سیکرٹری نے عمران خان کے حوالے سے جو گفتگو کی‘ سفارتی پروٹوکول میں ویسی گفتگو برائے اطلاع ہی ہوتی ہے۔
خان صاحب کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا تو ایک اطلاع کے مطابق اُس وقت یہ بات بھی طے پائی تھی کہ اگلے انتخابات وقت سے پہلے کروائے جائیں گے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان اُس وقت نئی حلقہ بندیوں کے کام میں پھنسا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ بندیوں کا عمل بر وقت مکمل کرنے کے لیے اکتوبر 2021ء میں عمران خان کو‘ جب وہ وزیراعظم تھے‘ مسلسل 16خطوط لکھے کہ آئین کے آرٹیکل 151میں ‘ مردم شماری کے نوٹیفکیشن کو آئینی قرار دینے کے لیے ترمیم کی جائے لیکن خان صاحب نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کے کسی بھی خط کا کوئی جواب نہ دیا جس کی وجہ سے حلقہ بندیوں کا عمل مؤخر ہوتا چلا گیا۔ اسی لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تین اپریل کو قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے پر قانونی پوزیشن واضح کر دی۔ جب 11 اپریل کو شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو ئے تو قبل از وقت انتخابات کا معاملہ باہمی اعتماد کی شدید کمی‘ بدگمانی اور وعدہ شکنی کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ملتوی ہو گیا۔ اس دوران عمران خان نے عوامی ہمدردی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سیاسی جلسوں میں نا موافق بیان بازی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سیاسی ڈیڈ لاک برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے کسی شخصیت کو نہیں چھوڑا جسے تنقید کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ اس کے باوجود جب انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ عوام کو مزید متحرک کرنے کے لیے نت نئے جلسے منعقد کرتے رہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اپریل سے اب تک تحریک انصاف کے جو جلسے منعقد ہو چکے ہیں‘ ان پر اربوں روپے کے اخراجات کیے جا چکے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 209 اور 210 کے تحت سیاسی جماعتیں اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی پابند ہیں‘ یہ دفعات پی ٹی آئی پر بھی یکساں لاگو ہوتی ہیں لیکن عمران خان کے خلاف ان دنوں الیکشن کمیشن میں چلنے والے کیسوں کے تناظر میں الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف کی قیادت سے جلسوں پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیل طلب کرنا‘ کئی سوالات کو جنم دے سکتا ہے لیکن اگر اپوزیشن کی دیگر جماعتیں یا پھر حکمران اتحاد کی کوئی جماعت تحریک انصاف کے عوامی جلسوں پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب طلب کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوا دے تو الیکشن کمیشن کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔
عمران خان کے حلقۂ احباب میں شامل افراد کی رائے یہ ہے کہ خان صاحب صرف اپنے گرد موجود چار افراد کے گروپ کی بات سن کر ہی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ عمران خان موجودہ صورت حال سے شدید تناؤ میں ہیں۔ ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کا کیس‘ توہین عدالت کے آرڈیننس 2003ء کے تحت چل رہا ہے۔اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان میں توہین الیکشن کمیشن کیس‘ فارن فنڈنگ کیس اور قومی اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے ریفرنس بھی زیر سماعت ہے۔ ان کیسوں کی سماعت کے دوران بھی عمران خان ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن کے سربراہ پر برس پڑے۔ میری اطلاع کے مطابق ان کے تازہ ترین بیانات پر الیکشن کمیشن ان کو توہین الیکشن کمیشن کا ایک اور نوٹس بھجوا رہا ہے جس پر اعلیٰ عدلیہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رٹ کو برقرار رکھنے کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔ اب جبکہ خان صاحب کو کئی طرح کے کیسوں کا سامنا ہے‘ تو انہوں نے‘ میری معلومات کے مطابق‘ کچھ اہم ریٹائرڈ شخصیات سے ملاقاتوں کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ عمران خان کو ان شخصیات نے یہ باور کرایا ہے کہ انہیں تصادم کی پالیسی سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے خان صاحب کو یہی مشورہ دیا ہے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ براہِ راست رابطہ کریں۔دوسری طرف عمران خان اپنے سیاسی جلسوں میں کی جانی والی تقاریر میں متعدد بار اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد سے پہلے شوکت ترین کے ذریعے اہم سٹیک ہولڈرز کی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹا جا سکے لیکن دوسری جانب سے غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائی جا چکی تھی۔ میرے خیال میں شوکت ترین صاحب نے غالباًعمران خان کو دوسری جانب کے تحفظات کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا جس کی بھاری قیمت خان صاحب کو چکانا پڑی۔
وفاقی دارالحکومت میں آج کل یہ خبریں بھی خوب گرم ہیں کہ کچھ اہم شخصیات ہی نے عمران خان کو مقتدر حلقوں سے ملاقات کی تجویز دی تھی جس پر خان صاحب بھی آمادہ ہو گئے تھے اور شنید ہے کہ شاید یہ ملاقات ہو بھی چکی ہے۔ ایسی ملاقاتوں کا اہتمام کرنے والوں کا معمول ہوتا ہے کہ وہ جب بھی ملک کے داخلی یا خارجی اور سلامتی کے معاملات پر کسی اہم ملکی یا غیرملکی شخصیت سے ملاقات کا اہتمام کراتے ہیں تو وہ فریقین کو خود آگاہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ملاقات کے دوسرے فریق کو بھی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اس ملاقات کا پیغام دیا گیا ہو۔ اس پس منظر میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے چند مفاہمتی بیانات پر غور کریں تو صورتحال واضح ہوتی نظر آ رہی ہے جو ملکی مفاد کے لیے خوش آئند ہے۔
جہاں تک نومبر میں ہونے والی اہم تعیناتی کا سوال ہے تو اس کے حوالے سے ملک میں ایک طے شدہ قانونی طریقہ کار موجود ہے۔ اس آئینی طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم تجویز کردہ چند ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 243کے تحت وزیراعظم کا آئینی اختیار ہے۔ عمران خان جس عبوری تھیوری کا ذکر کر رہے ہیں وہ آئین کے برعکس ہے اور آئین سے منافی کوئی بھی کام ملکی مفادت میں نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں