"KDC" (space) message & send to 7575

نیب ترامیم کا تحریک انصاف کو کیا فائدہ پہنچے گا؟

ماضی میں‘ چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس ثاقب نثار نے توہینِ عدالت کا سخت ترین معیار قائم کر رکھا تھا اور اس معیار کی خلاف ورزی پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی اہم رہنماؤں کو توہینِ عدالت کے نتیجے میں عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے نااہلی سمیت دیگر سزائیں بھی مل چکی ہیں۔ ان رہنماؤں میں سابق سینیٹر نہال ہاشمی‘ اراکین قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر دانیال عزیز اور طلال چودھری شامل تھے جبکہ خواجہ سعد رفیق کے کیس میں سزا سرزنش کی حد تک ہی محدود رہی۔ خواجہ سعد رفیق کو یہ رعایت بھی حاصل رہی کہ جب الیکشن ٹریبونل لاہور نے ان کے حلقۂ انتخاب کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا تو سپریم کورٹ کے حکم امتناعی سے انہیں کسی حد تک ریلیف میسر آ گیا اور الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ تین سال بعد اس وقت منسوخ کر دیا گیا جب 2018ء کے الیکشن کا شیڈول جاری ہو رہا تھا۔میاں نواز شریف کی نااہلی مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔اس دوران مسلم لیگ (ن) میں عدلیہ مخالف بیانیہ کافی مقبول رہا۔اگر دیکھا جائے توسیاسی جماعتوں کے نزدیک عدلیہ کی حمایت اور مخالفت موسم کی تبدیلی کی طرح ہوتی ہے۔ جب نومبر 2011ء میں میمو گیٹ سکینڈل منظر عام پر آیا تو اُس وقت کی اپوزیشن جماعتیں بشمول تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) عدلیہ مخالف بیانات دیتی رہتی تھیں۔ اسی طرح اکتوبر 2016ء میں جب ڈان لیکس کا واقعہ ہوا تو یہ بھی بڑی اہمیت اختیار کر گیا جس پر تحریک انصاف‘ جو اُس وقت اپوزیشن میں تھی‘ عدلیہ مخالف بیانات دیتی رہی۔ 2018ء میں تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد اُس کی طرف سے عدلیہ مخالف بیانیہ عدلیہ کی حمایت میں تبدیل ہو گیا اور پھر عمران خان تحریک عدم اعتماد کی زد میں آ کر اقتدار سے محروم ہو نے کے بعد سیاسی جلسوں میں نہ صرف معزز عدلیہ بلکہ مقتدر حلقوں پر بھی تنقید کے نشتر چلانے لگے۔ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کے حوالے سے بھی جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جس پر اگرچہ اُن کے خلاف الیکشن کمیشن میں توہین الیکشن کمیشن کی مد میں کیس چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی روش پر قائم ہیں۔ خان صاحب کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کا کیس اہم موڑ میں داخل ہو چکا ہے جبکہ عمران خان کے آئینی ماہرین انہیں بے فکری کی گردان سنا رہے ہیں۔ یہاں یہ یاد دلانا بہت ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اُن کے آئینی ماہرین نے یہ باور کرا رکھا تھا کہ نظام انصاف اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا‘ انہیں سزا دینے والوں کو عوام کے سمندر کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی خوش فہمی میں مسٹر بھٹو تختۂ دار تک پہنچ گئے اور ان کے وکلا خاموشی سے لندن چلے گئے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج دھمکی کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے فیصلے کے مطابق سابق وزیراعظم کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔
اُدھر ملک میں اہم ریاستی اداروں کے خلاف مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ سابق بیوروکریٹس ‘سول سوسائٹی کے نمائندوں اور وکلا نے آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت سپریم کورٹ میں اداروں کی توہین کے حوالے سے پٹیشن دائر کر رکھی ہے کہ افواج پاکستان‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی تضحیک سے گریز کا فیصلہ صادر کیا جائے ۔ ریاستی اداروں کی عزت پوری ریاست کی عزت شمار ہوتی ہے۔ وہ افراد جو اداروں پر بے جا تنقید کرتے ہیں‘ ان کے ماضی کا ریکارڈ بھی چیک کیا جانا چاہیے۔ میں ایسی کئی شخصیات کو جانتا ہوں کہ جنہیں سابق صدر ضیاء الحق نے اُن کی کرپٹ پریکٹس کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا‘ اب اُن کی اگلی نسل اہم پوزیشنز حاصل کرنے کے بعد اداروں کی تضحیک کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسی شخصیات پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلے نظیر کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
اب کچھ ذکر نیب قوانین میں حالیہ ترامیم کا‘کہ جن سے کئی اہم شخصیات بشمول وزیراعظم شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف عائد الزامات سمیت 50کرپشن ریفرنسز احتساب عدالتوں نے واپس کر دیے ہیں۔ میرے نزدیک ان شخصیات کے خلاف کرپشن ریفرنس خارج ہونے کے بعد ان کے پارٹی ترجمانوں کو ان کی بے جا حمایت اور دفاع سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ عمران خان کا یہ بیانیہ حقیقت کا روپ اختیار کرتا نظر آرہا ہے کہ پی ڈی ایم کا حکومت میں آنے کا مقصد اپنے خلاف دائر کرپشن کیسز ختم کرانا تھا۔ موجودہ حکومت نے نیب قوانین کی 34 شقیں ختم کر دی ہیں۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط نہ کرنے کے باوجود ان ترامیم کا اطلاق ہو چکا ہے جوکہ آئین کے آرٹیکل (A)2 سے سراسر متصادم ہے۔ قرارِداد مقاصد نے اللہ کی حاکمیت کو ہی اقتدار کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے اور ریاست کے نمائندوں کو صادق اور امین ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔شریف خاندان اور زرداری خاندان کے خلاف دائر تمام کرپشن کیسز ختم ہونے کے باعث پاکستان کے اربوں روپے ہمیشہ کے لیے ڈوب چکے ہیں۔ اس حوالے سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ اس حوالے سے تمام حقائق قوم سے مکمل پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔ یہ تمام ترامیم یکم جنوری 1985ء سے نافذ العمل تصور کی جائیں گی جس کا پورا پورا فائدہ قومی احتساب بیورو کے ملزمان کو ہوگا۔ ان ترامیم کے بعد اہلِ خانہ کے اثاثے ملزم کے اثاثے تصور نہیں ہوں گے۔ اثاثوں کو ناجائز ثابت کرنے کی ذمہ داری قومی احتساب بیورو پر ہو گی۔ ملزم کی جائیداد کی قیمت مارکیٹ کے بجائے ڈپٹی کمشنر ریٹ کے مطابق متعین کی جائے گی اور اگر قومی احتساب بیورو کا افسر کسی شخص کے خلاف کرپشن ثابت نہ کر سکا تو متعلقہ افسر کو پانچ سال کی سزا ہوگی۔
اب اگرچہ احتساب عدالتوں سے کرپشن ریفرنسز خارج ہونے کے بعد شریف اور زرداری خاندان اپنے ساتھیوں سمیت صاف بچ نکلے ہیں لیکن عوام اگلے انتخابات میں اُن سے پورا پورا حساب لے سکتے ہیں جس کا براہِ راست فائدہ عمران خان کو پہنچے گا اور ممکنہ طور پر ان کے ووٹ بینک میں مثالی اضافہ ہو گا۔ اگر خان صاحب اس بیانیے کی مارکیٹنگ میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اگلے انتخابات میں وہ اپنے مخالفین کو بھاری مارجن سے شکست دے سکتے ہیں۔ اب جبکہ عمران خان سیاسی طور پر خاصے متحرک ہیں اور ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے سیاسی جلسے کرنے میں مصروف ہیں اور عنقریب لانگ مارچ کی کال بھی دینے جا رہے ہیں‘ اُنہیں اپنی توجہ پارٹی منظم کرنے کی طرف بھی کرنی چاہیے کیونکہ شنید یہی ہے کہ اگلے انتخابات نومبر 2023ء تک ہی ہوں گے۔
یہاں اس اہم نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے دسمبر 2022ء تک لوکل گورنمنٹ کے انتخابات منعقد کرانے ہیں جبکہ نئی حلقہ بندی اپریل مئی 2023ء تک مکمل ہوگی اور پھر بجٹ اجلاس کے بعد قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔ اگر اگست کے آخر تک نگران حکومت کی تشکیل مکمل ہو گئی تو نومبر 2023ء میں انتخابات منعقد ہو سکتے ہیں۔ اسی دوران عمران خان کے خلاف تمام مقدمات بھی منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔ اگر وہ ان مقدمات میں سرخرو ہوتے ہیں تو پھر اگلی حکومت شاید اُنہی کی ہو ‘ لہٰذا عمران خان عوامی جلسوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کو یونین کونسل کی سطح تک منظم کرنے کی طرف بھی توجہ مرکوز کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں