"KDC" (space) message & send to 7575

کرپٹ پریکٹس اور الیکشن کمیشن کے اختیارات

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں شوکاز نوٹس کے ذریعے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جماعت کے رہنمائوں فواد چودھری اور اسد عمر کو 27 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے لیے طلب کر رکھا تھا لیکن ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنمائوں کی طرف سے دائر کردہ درخواستوں کے بعد اب لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے خان صاحب اور فواد چودھری کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے توہین عدالت کے شو کاز نوٹس معطل کردیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹس کے خلاف خان صاحب اور فواد چودھری کی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جواد الحسن نے سماعت کی تھی۔ دورانِ سماعت خان صاحب اور فواد چودھری کے وکیل نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن واچ ڈاگ کے پاس توہینِ عدالت کی کارروائی کا دائرہ اختیار نہیں ہے‘ جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے عمران خان اور فواد چودھری کے خلاف شوکاز نوٹس کو معطل کرتے ہوئے کیس کی سماعت کے لیے 3رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ اب کیس کی اگلی سماعت 29 ستمبر کو ہونی ہے۔ خان صاحب اور فواد چودھری نے اپنی درخواستوں میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن کمیشن شوکاز نوٹس آئین کی شق کے منافی ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017 ء کی دفعہ 10 آئین کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی‘ لہٰذا توہین عدالت ایکٹ کی دفعات کے تحت ایسے نوٹس جاری نہیں کیے جا سکتے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے تحت توہینِ الیکشن کمیشن کے اختیارات تفویض کیے گئے ہیں جسے پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری بھی حاصل ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی منظوری دونوں ایوانوں سے ہوئی تھی اور یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 204کے تحت الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے مترادف اختیارات تفویض کرتا ہے ؛چنانچہ غالب امکان ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا معزز بینچ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ اختیار کے بارے میں جو بھی فیصلہ صادر کرے گا اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان مزید بااختیار ہوگا۔
اصولی طور پر توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد فواد چودھری کو اُسے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کرنا چاہیے تھا لیکن اس کیس کا فیصلہ آنے سے قبل ہائیکورٹ میں جا کر فواد چودھری نے خود ہی مستحکم الیکشن کمیشن کی راہ ہموار کر دی ہے کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن میں توہین الیکشن کمیشن کیس کی کارروائی جاری رہ سکتی ہے لیکن رٹ پٹیشن کا نتیجہ آنے تک کوئی حتمی حکم نامہ جاری نہیں کیا جائے گا اور اسی دوران سماعت کی اگلی تاریخ تک درخواست گزاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یعنی لاہور ہائی کورٹ میں فواد چودھری کی پٹیشن جزوی طور پر منظور کی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 222کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی اور پارلیمنٹ‘ صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ الیکشن کمیشن کو اسی آرٹیکل کے تحت یہ وسیع اختیارات بھی حاصل ہیں کہ کوئی بھی ایسا آرڈر جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آئینی اختیارات میں حائل ہو‘ الیکشن کمیشن اسے تسلیم کرنے سے گریز کر سکتا ہے۔ اب اگر اس حوالے سے مزید کوئی قانون سازی ہو جاتی ہے تو پھر الیکشن کمیشن اپنا لائحہ عمل بنانے میں مکمل طور پر آزاد ہوگا۔
اُدھر عمران خان آج سے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے احتجاجی تحریک کے آغاز کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک سے ان کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون کو سیل کرکے وفاقی دارالحکومت کو جزوی طور پر مفلوج کردیا جائے۔ وفاقی حکومت کے ناقص انتظامات سے تو یہی نظر آتا ہے کہ خان صاحب کی احتجاجی تحریک کے آغاز سے قبل ہی حکومت نے پسپائی اختیار کر لی ہے۔ لیکن اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں نے احتجاجی تحریک کے حوالے سے وفاقی حکومت کی راہ میں آنے اور احتجاجی تحریک کے شرکا کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی تو وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 148 اور 149 کے تحت صوبائی حکومتوں کو معطل کرنے کے وسیع اختیارات بھی رکھتی ہے۔ آئین نے وفاقی حکومت کو ایسے اختیارات اسی لیے تفویض کر رکھے ہیں تاکہ فیڈریشن کی سلامتی اور وحدت پر کوئی آنچ نہ آئے۔ میری اطلاع کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اپنے آئینی و قانونی ماہرین سے آئین کے آرٹیکل 148 اور 149 کے حوالے سے مشورے کر رہے ہیں اور چونکہ پرویز الٰہی پاکستان کی وحدت و سلامتی کے امین اور ضامن ہیں‘ وہ اسلام آباد پر اس یلغار میں شاید عمران خان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ احتجاج کا ہر سیاسی جماعت کو آئینی و قانونی حق حاصل ہے لیکن کسی سیاسی جماعت یا گروہ کودارالحکومت کو مفلوج کرنے کی اجازت آئین نہیں دیتا۔ لہٰذا عمران خان آئین سے متصادم احتجاج کی کوئی بھی کال دینے سے گریز کریں۔ موجودہ صورتحال سے یہی لگتا ہے کہ الیکشن اپنے شیڈول کے مطابق نومبر 2023ء میں ہی ہوں گے‘ لہٰذا وفاقی حکومت بلاوجہ اسلام آباد کو سیل کرکے الارمنگ صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرے۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے احتجاج کی طرف جانے کے بجائے تحریک انصاف کو یونین کونسل کی سطح تک فعال بنا کر اگلے عام انتخابات کے لیے پارلیمانی بورڈ کے ذریعے امیدواروں کو منتخب کریں اور اپنے موجودہ ووٹ بینک کا زمینی حقائق کے مطابق جائزہ لیں۔ عمران خان خاطر جمع رکھیں کہ ان کی پارٹی سے علیحدہ ہونے والوں کو کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی صفوں میں داخل نہیں کرے گی۔ خان صاحب کو یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ ان کے جن آئینی ماہرین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی توہین الیکشن کمیشن کی کارروائی روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا‘ بین السطور میں انہوں نے تحریک انصاف کی خدمت نہیں کی۔ اب اگر معزز عدالت نے سیکشن 10کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حق میں فیصلہ سنا دیا تو پھر عمران خان سپریم کورٹ آف پاکستان کے فورم سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ ماضی میں فیصل واوڈا بھی اپنے کیس کو مؤخر کرنے کے لیے نظامِ انصاف سے ریلیف لینے کی کوشش کرتے رہے لیکن بالآخر الیکشن کمیشن میں بازی ہار گئے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 218 اور 222کو مدِنظر رکھنا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 222کی سب شق ڈی اور ای چشم کشا ہے جس کے تحت کسی بھی کرپٹ پریکٹس کے حوالے سے الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔
اب سیاست سے ہٹ کر اگر ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی بات کریں تو سیلاب زدگان کے حوالے سے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں حقائق سے چشم پوشی کرتی رہی ہیں۔ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے سیلاب زدگان کو سخت مایوس کیا ہے۔ پہلے ناقص منصوبہ بندی اور اب ریسکیو‘ ریلیف اور بحالی کی ناکافی کوششوں کے بعد عوام حکومتوں اور سیاسی شخصیات سے سخت ناراض ہیں۔ اس لیے حکومت میں شامل اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کو فی الوقت سیاست کو پس پشت ڈال کر اپنی ساری توجہ سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی پر مرکوز کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں