"KDC" (space) message & send to 7575

صرف پارلیمنٹ کا راستہ

عمران خان نے ستمبر کے آخری ہفتے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا عندیہ دیا تھا۔ وہ اپنے عوامی جلسوں میں کئی ماہ سے اپنے کارکنوں کو اس لانگ مارچ کے لیے متحرک کر رہے ہیں لیکن زمینی حقائق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کسی بھی سطح پر لانگ مارچ کی تیاری شروع نہیں کی گئی اور تحریک انصاف کی قیادت بظاہر پسِ پردہ مفاہمت کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کے لیے جو مشروط آمادگی ظاہر کی ہے اس سے بھی یہی عیاں ہوتا ہے کہ وہ لانگ مارچ کا ارادہ ترک کر چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اسی صورت واپس آئیں گے جب امریکی سائیفر کی تحقیقات کرائی جائیں گی۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ عمران خان ذہنی طور پر قومی اسمبلی میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ جہاں تک سائیفر کا معاملہ ہے تو اس کی وضاحت پہلے ہی کی جا چکی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے قاسم سوری کی ناقص رولنگ کو خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں امریکی سائیفر کا ذکر کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیاں اس کو مسترد کر چکی ہیں اور یہ کہ عمران حکومت گرانے میں کسی قسم کی غیرملکی سازش کا کوئی شائبہ نہیں۔
صدرِ مملکت نے امریکی سائیفر کی تحقیقات کے لیے تاریخی حوالوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو جو خط بھجوایا ہے اس میں انہوں نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت‘ آئین ساز اسمبلی کی برخاستگی‘ جو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اکتوبر 1954ء میں برخاست کردی تھی اور اس کی پشت پر بھی امریکی سازش نمایاں نظر آ رہی تھی‘ کا حوالہ دیا ہے۔ صدرِ مملکت نے ایوب خان کی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ صدرِمملکت نے 'حکومت تبدیلی سازش‘ کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کے لیے جو خط لکھ رکھا ہے‘ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان صدرِ مملکت کے اس خط کی روشنی میں سائیفر کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن مقرر کر دیتی ہے تو پہلی بات یہ کہ اس کمیشن کی جامع رپورٹ آنے میں چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر مہینوں کی تحقیقات کے بعد جوڈیشل کمیشن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو گرانے میں کوئی بیرونی سازش شامل نہیں تھی تو عمران خان کی سیاسی اور عوامی مقبولیت میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلی واپسی کا یہ عندیہ ایسے وقت میں آیا ہے جب چند روز قبل ہی چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس عمر عطا بندیال پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپس جاکر اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو عمران خان 52کے قریب سیاسی جلسوں کے بعد بھی حکومت کو دباؤ میں لانے میں ناکام رہے ہیں‘ شاید اسی لیے اب انہوں نے امریکی سائیفر کی تحقیقات کی شرط کے ساتھ قومی اسمبلی میں واپسی کی مشروط آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ اگرچہ خان صاحب نے اپنے سیاسی جلسوں کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوانوں میں سیاسی شعور اُجاگر کیا ہے لیکن ملک کے معاشی حالات درست کیے بغیر اور ملک کو فلاحی ریاست میں تبدیل کیے بغیر یہ سیاسی شعور بے معنی معلوم ہوتا ہے۔ عمران خان کی ایوانِ صدر میں مقتدر حلقوں سے ملاقات کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئی ہیں‘ بظاہرکوئی بھی ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں جبکہ کچھ حلقوں کی طرف سے اب دوسری ملاقات کا شوشہ بھی چھوڑا جا رہا ہے۔ خان صاحب حالیہ دنوں خود کہہ چکے ہیں کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو ان کے مقتدرہ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے‘ پتا نہیں یہ تعلقات کب اور کیسے خرابی کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اب انہیں طاقتور حلقوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب وہ حکومت میں نہیں ہیں‘ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت ان اہم شخصیات سے‘ جنہیں وہ اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے‘ بیک ڈور ملاقاتوں کے لیے ہمیشہ بے تاب رہتی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے رویے میں تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ تحریک انصاف کی قیادت نے چیف الیکشن کمشنر کی کردار کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور اب بھی جبکہ توہین الیکشن کمیشن کا مقدمہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے‘ اپنے انٹرویوز میں تحریک انصاف کے رہنما چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن پر آوازے کسنے سے گریز نہیں کرتے۔ بہرحال الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی حیثیت کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے‘ لہٰذا توہین الیکشن کمیشن کیس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ میری رائے میں عمران خان کے قانونی ماہرین ان کو آئین و قانون کے مطابق رائے نہیں دے رہے جبکہ خان صاحب کو اس وقت صرف ممتاز آئینی ماہرین سے اپنے کیسوں سے متعلق رائے لینی چاہیے۔ حامد خان ایسی شخصیت ہیں جو عمران خان کو آئینی و قانونی بحران سے نکال سکتے ہیں شاید اسی لیے خان صاحب نے انہیں تحریک انصاف کی مشاورتی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف کی حکومت ملکی مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے 72رکنی کابینہ تشکیل دے کر محض ملک کے غریب عوام پر بوجھ ڈال رکھا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اُس کی شرائط پر معاہدے کے باوجود ڈالر کی قدر میں بے پناہ اضافہ ہو چکا۔ شہباز حکومت نے معاشی بدحالی پر قابو پانے کے لیے اسحاق ڈار کو نہ صرف وطن واپس بلوا لیا ہے بلکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی رکنیت کا حلف بھی اٹھا لیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نے مفتاح اسماعیل کے استعفے کے بعد اسحاق ڈار کو نیا وزیر خزانہ نامزد کیا ہے۔ ادھر وزیراعظم شہباز شریف اس وقت آڈیو لیکس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اگرچہ وزارتِ داخلہ نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے لیکن ان آڈیو لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد سائبر سکیورٹی کے معاملات پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ملکی سیاست کے الجھاؤ اپنی جگہ مگر سیلاب کی تباہ کاریاں ان دنوں بنیادی توجہ کا موضوع ہیں۔ ابھی تک لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں‘ ان کے لیے مناسب انتظامات کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادوں ذمہ داری ہے۔ اگر صوبوں کی حد تک دیکھا جائے تو حکومت پنجاب سیلاب متاثرین کے لیے اس طرح کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی جیسا کہ اس سے توقع تھی۔ وفاقی حکومت کی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بھی کئی ایسے معاونِ خصوصی مقرر کر چکے ہیں جن کی افادیت پر سوالیہ نشان ہیں اوران کی تقرری سے حکومت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو رہا۔ یوں لگتا ہے کہ پنجاب کے حکمرانوں کی توجہ کا محور آنے والے انتخابات ہیں‘ جبکہ صوبے کے ایک بڑے حصے میں سیلاب سے جو لوگ متاثر ہو چکے ہیں‘ جن کے نہ گھر محفوظ رہے ہیں نہ آمدنی کے وسائل‘ حکومت ان کے مسائل سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی رسہ کشی اور ذاتی مفادات کی جو فضا ملک میں قائم ہو چکی ہے اس کے پیشِ نظر ملکی عوام کے لیے کوئی بھی نہیں سوچ رہا نہ ہی آنے والے وقت کے بارے میں‘ ہر جماعت اپنے اپنے مفادات کی دوڑ میں لگی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں