"KDC" (space) message & send to 7575

آڈیو لیکس اور سائفر بیانیہ

امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید نے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ساؤتھ ایشیا کی گفتگو پر مبنی سائفر جب پاکستان بھجوایا تو سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس سائفر کو اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش قرار دیا۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جب خان صاحب نے اس سائفر کو بنیاد بنا کر بیرونی مداخلت کا بیانیہ اپنایا تو عوام نے اس پر آمنا و صدقنا کہا۔ اب اس سائفر کے حوالے سے عمران خان کی جو آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں اُن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بیرونی مداخلت کا بیانیہ محض عوامی حمایت اور ہمدردی حاصل کرنے کی خاطر اپنایا تھا۔ آڈیو لیکس میں خان صاحب کو وزیر خارجہ اور اپنے پرنسپل سیکرٹری کو اس سائفر پر کھیلنے کی ہدایات دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے موجودہ اور سابق وزیراعظم کی اہم گفتگو لیک ہونے کو کسی صورت درست امر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اگر ملک کے وزیراعظم ہائوس کی سائبر سکیورٹی کا یہ عالم ہے تو باقی ملک میں حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘لیکن اتحادی حکومت اور اپوزیشن اس اہم نوعیت کے قومی سلامتی کے معاملے کو سیاست کی نذر کر رہی ہیں۔ بہرحال خان صاحب کو سائفر کو مقامی اور قومی سیاست میں نہیں لے کر جانا چاہیے تھا۔ وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 92کے تحت رازداری کا حلف اٹھاتا ہے‘ اس عہدے پر رہتے ہوئے یا اس سے دستبردار ہونے کے بعد اہم قومی رازوں سے پردہ اٹھانا اس آئینی شق کی خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں اہم اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو لیک ہو جانا اور ڈارک ویب پر برائے فروخت موجود ہونا وزیراعظم ہائوس کی سائبر سکیورٹی پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔ یہ قومی سلامتی کے تقاضوں سے منسلک ایک اہم معاملہ ہے۔ متعلقہ اداروں نے اگرچہ مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کیلئے حفاظتی اقدامات کر لیے ہوں گے لیکن اس بات کی تصدیق نہیں ہو پائی کہ کس قدر نقصان ہو چکا ہے؛ تاہم یہ سائبر سکیورٹی میں خامی کا معاملہ سنگین ہے جس میں ملک کے اعلیٰ ترین ایگزیکٹو عہدیدار کے دفتر کی جاسوسی کی گئی ہے۔ حکومت اور متعلقہ ادارے اب بھی ڈارک ویب کے اس دعوے کے حوالے سے اندھیرے میں ہیں کہ اس کے پاس وزیراعظم آفس کا آڈیو ڈیٹا موجود ہے یا نہیں اور کیا ہیکر یہ ڈیٹا آنے والے دنوں میں جاری کرے گا یا نہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کی سربراہی میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے‘ ہماری رائے میں اس کو اپنی تحقیقات کا آغاز ان افراد سے کرنا چاہیے جنہوں نے عمران خان کو گمراہ کرتے ہوئے سائفر کا استعمال کیا اور اسے پسندیدہ الفاظ میں تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ میری ناقص رائے میں سفارتی کیبل میں ردو بدل کرنے والوں نے آئین کی خلاف ورزی کی۔
امریکہ میں متعین سابق سفیراسد مجید‘ جو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک لائق افسر ہیں‘ کو وزارتِ خارجہ کا سیکرٹری لگائے جا نے کی خبریں ہیں۔ممکنہ طور پروہ خود ہی سائفر معاملے کے بارے میں اپنا موقف وفاقی وزیر داخلہ کی کمیٹی کے سامنے پیش کر دیں گے جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔دوسری طرف جب سے خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے اور وہ اقتدار سے الگ ہوئے ہیں‘ وہ ملک بھر میں سیاسی جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں طلبہ سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے الیکشن کمیشن سمیت بعض اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ خان صاحب کے خلاف پہلے ہی الیکشن کمیشن میں توہین کا کیس زیرِ سماعت ہے اور کمیشن نے خان صاحب‘ فواد چودھری اور اسد عمر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر رکھا ہے۔ توہین الیکشن کمیشن کی اگلی سماعت 11اکتوبر کو مقرر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا خان صاحب اس سماعت پر جماعت کے دیگر رہنمائوں کے ہمراہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوتے ہیں یا گزشتہ سماعت کی طرح اس بار بھی ان کے وکلا ہی حاضر ہوں گے۔ خان صاحب کو اپنے وکلا کے ذریعے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن انہیں چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنانے سے احتراز کرنا چاہیے۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں چیف الیکشن کمشنر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مخلوط حکومت کے کچھ اہم رہنماؤں کی طرف سے مبینہ آڈیو لیک میں کی گئی گفتگو کے بعد ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا؛ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آڈیو لیکس کے معاملے میں خان صاحب کی طرف سے عائد کیے گئے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے الزامات کی سختی سے تردید کردی ہے لیکن کچھ وزرا کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خان صاحب کے اس الزام پر بھی کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ آڈیو لیکس کے حوالے سے کی جانی والی گفتگو سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ خان صاحب پر سائفر میں ردوبدل کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے‘ جس کے باعث آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ان کے خلاف مقدمہ بنانے کی بھی کوشش ہو رہی ہے لیکن کمزور ترین اور قوتِ فیصلہ سے محروم وفاقی حکومت اس قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرے گی‘ یہ محض عوام میں چند روز کا شور مچا کر کسی دوسری سمت نکل جائے گی۔ ماضی میں کئی اہم واقعات اس حکومت نے بڑے آرام سے 'انڈر کارپٹ‘ کر دیے ہیں جن میں بلوچستان ہیلی کاپٹر سانحے کے بعد سوشل میڈیا پر چلنے والی پروپیگنڈا مہم سر فہرست ہے۔ اس مہم کے ذمہ داران کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں اور وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے جارحانہ اعلان بھی سامنے آئے لیکن پھر خاموشی اختیار کر لی گئی حالانکہ حکام کی طرف سے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سخت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے اعلیٰ افسران کے خلاف انکوائری کا فیصلہ ہوا تھا اور وزیر دفاع کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن ابھی تک اس کمیٹی کا ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہو سکا۔ سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 6کا حوالہ دیا تھا اور وزیر قانون و انصاف نے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کمیٹی بنائی تھی اور وہ بھی کسی نتیجہ کے بغیر ختم کر دی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نوٹس لینے کے ماہر ہیں‘ جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں ہزاروں نوٹسز جاری کیے تھے جس کا کوئی منطقی نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔ دراصل وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کے رویّے اور ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ قدم اٹھانے سے ہمیشہ ہچکچاتی رہی ہے۔ دوسری طرف ملک کے معاشی حالات کی بات کی جائے تو لگتا ہے کہ اب اسحاق ڈار وزیر خزانہ بننے کے بعد حکومت کو معاشی دباؤ سے نکال لیں گے۔ ان کی واپسی سے اب تک ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور ڈار صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ڈالر کو 200 سے نیچے لائیں گے لیکن نہ تو حکومت اور نہ ہی وزیر خزانہ کی طرف سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ عوام کو کیسے ریلیف بہم پہنچائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں