"KDC" (space) message & send to 7575

مستقبل کے وعدہ معاف؟؟

پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کا سیاسی مستقبل فی الحال خطرات کا شکار ہو تا نظر آ رہا ہے۔ خان صاحب کے خلاف سیکریٹ ایکٹ اور اپنے حلف کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے کے لیے وفاقی حکومت متحرک ہو چکی ہے۔ سائفراور آڈیو لیک پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قرار داد لانے پر بھی غور و خوض ہو رہا ہے۔ سائفر بیانیے سے متعلق‘ خان صاحب کی آڈیو لیکس کے بعد چشم کشا حقائق عوام کے سامنے آ چکے ہیں جس سے عوام میں یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ پاکستانی سفیر کی ایک امریکی عہدیدار سے ہونے والی گفتگو پر مبنی مراسلے میں عمران خان کی ہدایت پر تبدیلیاں کر کے اسے سازش کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے خان صاحب کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے منٹس میں تبدیلی کرکے اہم کردار ادا کیا۔ بعد ازاں عمران خان عوامی جلسوں میں برملا امریکہ کو اُن کی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے‘ یہی نہیں بلکہ وہ ریاستی اداروں کو بھی اندرونی سازش کا مرتکب ٹھہراتے رہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے امریکہ کو اقتدار سے علیحدگی کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا‘ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی خرابی سمیت مجموعی قومی مفادات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اب کابینہ ڈویژن نے ایف آئی اے سے اس حوالے سے تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس بنا پر عمران خان قانونی گرفت میں آ سکتے ہیں۔
وفاقی کابینہ نے سائفر کی آڈیو لیکس کے معاملے پر سابق وزیراعظم عمران خان‘ اسد عمر‘ شاہ محمود قریشی اور سابق پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ کابینہ نے 30 ستمبر کو عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو لیک پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے بعد کابینہ کمیٹی نے یکم اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی۔ کابینہ کمیٹی کی سفارشات کو سمری کی شکل میں کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیا گیا جس کے بعد وفاقی کابینہ نے 'سرکولیشن‘ کے ذریعے کابینہ کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دی۔
ممکنہ طور پر ایف آئی اے جونہی اعظم خان کے گرد گھیرا تنگ کرے گی تو ہو سکتا ہے کہ ماضی کی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعظم خان مسعود محمود کی طرح وعدہ معاف گواہ بن کر ایسے حقائق سے پردہ اٹھا دیں جن سے عمران خان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح جب تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع ہوگا اور تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماؤں سے پوچھ گچھ کی جائے گی تو ان میں سے بھی کوئی وعدہ معاف گواہ بن سکتا ہے۔ان حالات میں خان صاحب کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دینا مشکل ہو جائے گا۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہہ چکے ہیں کہ سائفر کا معاملہ پارلیمنٹ میں جائے گااور پارلیمنٹ آرٹیکل 6کا ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ حکومت کی طرف قومی اسمبلی اور سینیٹ سے عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی منظوری حاصل کرنے کے بعد خان صاحب کے لیے ریلیف حاصل کرنے کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے کیونکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو کسی بھی پلیٹ فارم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت آرٹیکل 6کے تحت عمران خان کے خلاف مقدمے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی خواہش مند ہے۔ اگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو مجھے تحریک انصاف میں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آ رہی جو اس مقدمے میں خان صاحب کا بھرپور ساتھ دے سکے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ عوام میں خان صاحب کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان کی غیرموجودگی میں عوام کی قیادت کون کرے گا؟ عمران خان نے اپنی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے تاحال کسی کو بھی اپنا جانشین مقرر ہی نہیں کیا‘ لگتا ہے کہ انہیں اپنے قریبی ساتھیوں اور پارٹی کے پرانے دوستوں میں سے کوئی اپنی جانشینی کے لیے ابھی تک بھایا نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک کو نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو آگے بڑھاتی رہیں جبکہ نومبر 1968ء میں صدر ایوب خان کے حکم پر مسٹر بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو ان کی تحریک کو ایئرمارشل اصغر خان نے آگے بڑھایا تھا اور ان کے دباؤ سے ہی مسٹر بھٹو ضمانت پر رہا ہو سکے۔
دوسری طرف حکومت کے لیے خان صاحب کی گرفتاری کوئی آسان مرحلہ ثابت نہ ہوگا‘ اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ ہفتے خان صاحب کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد سب دیکھ چکے ہیں لیکن وزیراعظم کے معاونِ خصوصی اور آئینی ماہر عرفان قادر نے خان صاحب کی گرفتاری کے حوالے سے موقف اختیار کیا ہے کہ جب تحقیقاتی اداروں کو پی ٹی آئی کے چیئرمین کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہو گی تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت کا عمران خان کو کسی کمزور کیس میں گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جہاں تک آڈیو لیکس کا معاملہ ہے تو پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو ا۔ ماضی میں ریکارڈنگ کرنے کے جدید آلات نہ ہونے کے باوجود اہم شخصیات کی ایسی خفیہ ریکارڈنگز ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان میں پہلی مشہور آڈیو لیک احتساب کمیشن کے چیئرمین سینیٹر سیف الرحمن اور جسٹس (ر) قیوم ملک کے درمیان ہونے والی گفتگو سے متعلق تھی جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک کیس میں سزا دینے اور نااہل کرنے کے لیے حکمت عملی طے کی گئی تھی۔ سردار فاروق خان لغاری بھی اس سلسلے کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ مجھے میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم نے دسمبر 1996ء میں‘ جب وہ بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ تھے‘ بتایا تھا کہ صدر فاروق لغاری کو ایک ایسی وڈیو دکھائی گئی تھی جس سے وہ نہ صرف بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے مخالف ہو گئے بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی سے اپنا دیرینہ تعلق توڑتے ہوئے جنرل جہانگیر کرامت سے مشاورت کے بعد آئین کے آرٹیکل 58(2) (بی) کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔ آڈیو اور وڈیو لیکس کا تخریبی کمال یہ ہے کہ اس سے سیاست کا رخ بدل جاتا ہے۔ اب چونکہ جدید ٹیکنالوجی آ گئی ہے اور ''ہیکرز‘‘ جیسے کردار بگنگ میں شامل ہو چکے ہیں تو اس پس منظر میں پاکستان کی سیاست کا اچانک کوئی نیا رخ متعین ہونے والا ہے۔
گزشتہ روز بھی سابق وزیراعظم عمران خان کی دو نئی مبینہ آڈیو لیک ہوئیں۔ ایک میں انہیں نمبر گیم اور ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں گفتگو کرتے سنا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ چار روز قبل وزیراعظم شہباز شریف نے آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں وفاقی وزرا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان شامل ہیں۔ کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان آڈیو لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ دوسری طرف شنید ہے کہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کو گرانے کے لیے تحریک انصاف کے دس کے لگ بھگ اراکینِ صوبائی اسمبلی استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہو چکے ہیں اور چودھری شجاعت حسین بھی اپنے حامی اراکینِ صوبائی اسمبلی کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔کیا پنجاب کو پھر سے حکومت تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑے گا؟
روز افزوں سیاسی کشیدگی‘ فریقین کے غیر لچکدار رویے‘ معاشی بحران اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال سے مسائل کا بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔سیاسی رسہ کشی میں عوام نہ حکومت کی ترجیح ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کی۔ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت عوام بالخصوص سیلاب زدگان ان کی خصوصی توجہ اور امداد کے منتظر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں