"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی الجھنیں

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اس وقت توہینِ الیکشن کمیشن سمیت دیگر اہم نوعیت کے جو کیسز زیرِ سماعت ہیں‘ ان میں جاری شوکاز نوٹسز کی روشنی میں قانونی طور پر عمران خان کا ذاتی حیثیت میں پیش ہونا لازمی ہے۔ اگر خان صاحب ان کیسز میں ذاتی حیثیت میں پیش نہیں ہوتے تو الیکشن کمیشن قانونی طور پر یکطرفہ کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 218‘ 220اور 222کے تحت توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی میں کسی حتمی فیصلے سے پیشتر سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ کی رولنگ کو مدنظر رکھنا ہے۔ الیکشن کمیشن کو اختیارات حاصل ہیں اور توہین الیکشن کمیشن کیس میں وہ آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت کارروائی جاری رکھنے میں بااختیار ہے۔ اس کے فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو متعلقہ پلیٹ فارم پر اپیل کرنے کا قانونی حق بھی حاصل ہے۔
دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ نے چارسدہ جلسے میں شرکت کرنے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف تادیبی کارروائی سے الیکشن کمیشن کو عدالت کے آئندہ حکم نامے تک روک دیا ہے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر وزیراعلیٰ کی درخواست کا تحریری جواب عدالت میں جمع کروائے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبے میں ضمنی انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق وزیراعلیٰ خیبر پختوانخوا محمود خان پر لاگو نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے 6ستمبر کے جلسے میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سابق وزیراعظم اور پارٹی چیئرمین عمران خان‘ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور دیگر وزرا اور مشیروں سمیت کابینہ کے متعدد ارکان پر 50‘ 50 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ یہ جرمانہ الیکشن کمیشن کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر شہاب الدین نے عائد کیا تھا۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کا کہنا تھا کہ انتخابی جلسے کی وڈیوز‘ تصاویر اور نیوز کلپ میں موجود شواہد کی جانچ پڑتال اور مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کے بعد ثابت ہوا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا‘ کابینہ کے ارکان‘ مشیروں اور معاونینِ خصوصی سمیت متعدد سرکاری عہدیداروں نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے پیراگراف نمبر 17 (بی) کی خلاف ورزی کی ہے۔اس پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ 'عوامی عہدیدار بشمول صدر‘ وزیر اعظم‘ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ‘ تمام اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر‘ وفاقی وزرا‘ وزرائے مملکت‘ گورنر‘ وزیر اعلیٰ‘ صوبائی وزرا اور وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کے مشیر کسی بھی امیداوار کے جلسے میں شرکت نہیں کر سکتے‘اس لیے وزیراعلیٰ نے ٹیکنیکل طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 234کے تحت الیکشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔
الیکشن کمیشن سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھجوائے گئے توشہ خانہ ریفرنس کا بھی جائزہ لے رہا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 63ون اور آرٹیکل 223 کے تحت یہ ریفرنس چاراگست کو الیکشن کمیشن کوبھجوایا تھا اور الیکشن کمیشن اس ریفرنس میں میرٹ پر فیصلہ کرنے کے لیے تمام پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس کیس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان سے متعلقہ کوائف‘ ڈیٹا اور دستاویزات طلب کیے ہیں۔یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 220کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان وفاقی‘ صوبائی حکومتوں اور سروسز آف پاکستان کے اداروں بشمول آڈٹ جنرل آف پاکستان اور ایف بی آر سے دائر شدہ مقدمات کے فیصلے کے لیے ضروری ریکارڈ حاصل کرنے کا مجاز ہے۔
تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ان کے خلاف دائر کیسوں کے باوجودجارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو این اے 239 شاہ فیصل کالونی کورنگی کراچی میں 14 اکتوبر کے جلسے کے حوالے سے مشورہ دیا تھا کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے گریز کریں بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے پیرا 30 کے تحت بلدیاتی انتخاب کے اس حلقے میں عوامی اجتماع یاجلسے‘ کار ریلیوں‘ ہتھیاروں کی نمائش اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق دیگر خلاف ورزیوں پر پابندی ہے اورانتخابی ضابطہ اخلاق کی اس خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن آف پاکستان تادیبی کارروائی کا مجاز ہے۔مگر تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے احکامات پس پشت ڈالے جا رہے ہیں‘ دوسری جانب جن اہم کیسز کی سماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان کر رہا ہے‘ ان پر بھی تحریک انصاف نے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے۔ میری رائے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئینی و قانونی معاملات میں جو رکاوٹیں اور مشکلات پیش آ رہی ہیں ان کے تدارک کے لیے اسے آئین کے آرٹیکل 218اور 222کی روشنی میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے رہنمائی لینی چاہیے۔ واضح رہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن کی ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ جب اسے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ براہِ راست سپریم کورٹ آف انڈیا سے معاونت اور رہنمائی حاصل کرتا ہے۔
شنید ہے کہ خان صاحب کو اُن کے مشیروں اور قانونی ماہرین نے فارن فنڈنگ کیس کے مضمرات سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں کیا ہے جبکہ ایف آئی اے نے تحریک انصاف کی بیرون ملک کمپنیوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ ان کمپنیوں سے متعلقہ دستاویزات کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی منطقی نتیجہ اخذ کیا جائے گا لیکن کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی تحریک انصاف نے ایف آئی اے کی کارروائی کو معطل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔یہاں ایک اور پیش رفت کا ذکر بھی ہونا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے بارے ریمارکس دیتے ہوئے اسے کالا قانون قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان ماضی میں اسی آرٹیکل کے تحت جہانگیر ترین اور نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے چکی ہے۔ اب اسی نوعیت کا کیس فیصل واوڈا کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے جو کہ خوش آئند ہے اور ممکن ہے کہ سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی واضح تشریح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہی یہ اختیارات تفویض کردے۔
میری رائے میں خان صاحب لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد آنے کے بجائے فی الحال اپنے حامیوں کا خون گرمانے کے لیے مختلف شہروں میں جلسے کرتے رہیں گے۔ اگر تحریک انصاف ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں سے کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے وفاقی حکومت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا کیونکہ ممکنہ طور پر اُس کے بعد خان صاحب عام انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی تحریک تیز کر سکتے ہیں جس کے لیے وفاقی حکومت تیار نظر نہیں آتی۔ عمران خان کی حالیہ آڈیو لیک کے بعد اُن پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے لیکن میرے خیال میں اس حوالے سے ان کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا‘ یہ محض گفتگو کا حصہ ہے جو سیاستدانوں اکثر کرتے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں