"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی تاریخی کامیابی اور حلف کا آئینی طریقہ کار

16اکتوبر کو قومی اسمبلی کی آٹھ اور پنجاب اسمبلی کی تین نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات اس حوالے سے تاریخ ساز رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی کی سات میں سے چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے نئی تاریخ رقم کی لیکن خان صاحب نے ان چھ نشستوں پر کامیابی کے بعد بھی بطور ممبر قومی اسمبلی حلف نہ اُٹھانے کا عزم کیا ہوا ہے‘ لہٰذا یہ نشستیں خالی ہی تصور کی جائیں گی۔ پیپلز پارٹی نے بھی قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے حکمران اتحاد کی نشستوں میں اضافہ کیا مگردوسری طرف ان انتخابات میں کراچی میں ایم کیو ایم کی مقبولیت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ ہمارے نزدیک ایم کیو ایم کی مسلسل تنزلی کی اصل وجہ جماعت کی لیڈر شپ اور رابطہ کمیٹی میں موجود شدید اختلافات اور ناقص حکمت عملی ہے۔ضمنی انتخابات میں جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کا تعلق ہے تو (ن) لیگ ان انتخابات میں پنجاب میں اپنی مقبولیت ثابت کرنے میں مکمل ناکام ثابت ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) میں موجود گروہ بندی کی وجہ سے پنجاب (ن) لیگ کے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔ جماعت کے بیشتر سطحی قسم کے لیڈر صرف حکومتی عہدے حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم سمیت جماعت کے کسی بھی بڑے لیڈر نے ضمنی انتخابات کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی مایوس کن کارکردگی سے تحریک انصاف اور چودھری پرویز الٰہی کا گروپ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف اپنی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے نہ صرف پنجاب بلکہ ملک بھر میں اپنے مخالفین کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا میڈیا سیل بھی جماعت کی کامیاب کمپین کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے جبکہ پی ٹی آئی کی مقابل سیاسی جماعتوں کا میڈیا سیل بددلی کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کا میڈیا سیل اوورسیز پاکستانیوں کو بھی جماعت کے سحر میں مبتلا کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے لندن میں شریف خاندان کے افراد کو براہِ راست عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو لندن سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں اُن کے مطابق نواز شریف کا فی الحال پاکستان آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘ اُنہیں اپنی صحت اور بہتر بنانے کے لیے مزید وقت درکار ہے لیکن اگر نواز شریف پاکستان واپس آ بھی جاتے ہیں اور یہاں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہیں تو ملک کی موجودہ سیاسی فضا کے پیش نظر انہیں کافی عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر خان صاحب کی بیک وقت چھ نشستوں پر کامیابی کی بات کی جائے تو یہ ملک کی انتخابی تاریخ میں ایک ریکارڈ ضرورہے لیکن عمران خان اپنی چھ نشستیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے کیونکہ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے نتیجے میں خان صاحب اب بھی قومی اسمبلی کے ممبر ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے 123اراکینِ قومی اسمبلی نے 11اپریل کو جو استعفے دیے تھے‘ قومی اسمبلی کے سپیکر راجا پرویز اشرف نے اُن میں سے صرف 11اراکینِ اسمبلی کے استعفے منظور کیے تھے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے یہ استعفے آئینِ پاکستان کی دفعہ 64 کی شق (1) کے تحت تفویض کردہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے منظور کیے تھے‘ لہٰذا خان صاحب کی حالیہ ضمنی انتخابات میں چھ نشستوں پر کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 223 اور 224کی تشریح کے لیے اپیل دائر کی جائے گی جس کے مطابق ایک سے زائد نشستوں پر ممبر منتخب ہونے کے بعد خان صاحب کو تیس دنوں کے اندر کسی ایک نشست سے حلف لینے سے پہلے باقی نشستیں چھوڑنا پڑیں گی۔ جس کے بعد ایک بار پھر عوام پر واضح ہو جائے گا کہ قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر کامیابی کے باوجود حلف نہ اٹھا کر خان صاحب نے ووٹرز کی تمنا پوری نہیں کی۔ اُدھر سپیکر قومی اسمبلی بھی ایوان میں قرارداد کی صورت میں خان صاحب سے ان چھ نشستوں کے بارے میں جواب طلبی کرنے کے مجاز ہیں اور اگر عمران خان ایوان میں پیش نہیں ہوتے تو قومی اسمبلی کے سپیکر اپنی رولنگ کے ذریعے ان چھ نشستوں کے مستقبل کے بارے میں اپنا فیصلہ سنانے کے مجاز ہیں۔ دوسرے طرف اگر دیکھا جائے تو چودھری نثار علی خان نے تین سال تک ممبر پنجاب اسمبلی کا حلف نہیں اُٹھایا تھا اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے چودھری نثار علی خان کے بارے میں کوئی رولنگ نہیں دی تھی‘ اسی طرح چیئرمین سینیٹ نے بھی مخصوص حکمت عملی کے تحت اسحاق ڈار کی مسلسل غیرحاضری اور حلف نہ اٹھانے کے باوجود اس حوالے سے کوئی بھی رولنگ دینے سے گریز کیا تھا لیکن گزشتہ ماہ ڈار صاحب حلف اُٹھا کر وزارتِ خزانہ کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ مگر خان صاحب کے کیس میں صورتحال مختلف ہے‘ وہ خود ممبر قومی اسمبلی کا حلف نہ اٹھانے کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔
اگر ضمنی انتخابات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اتحادی حکومت شروع دن سے ان انتخابات سے فرار چاہتی تھی‘ اس مقصد کے لیے حکومت نے تحریری طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے استدعا بھی کی تھی کہ ضمنی انتخابات کو تین ماہ کے لیے موخر کر دیا جائے۔ اس ضمن میں ایک بہانہ یہ بھی تراشا گیا کہ سکیورٹی فورسز چونکہ سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف ہیں‘ اس لیے ضمنی انتخابات میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے مطلوبہ فورس نہ ہونے کی وجہ سے یہ الیکشن ملتوی کیے جائیں لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یہ استدعا مسترد کر دی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) بالخصوص ان ضمنی انتخابات سے گریزاں تھی۔ اتحادی حکومت کی ضمنی انتخابات میں غیر سنجیدگی کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ جولائی میں ہونے والے پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات اور حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی واضح کامیابی سب کے سامنے ہے۔ دونوں ضمنی انتخابات کے نتائج کا بغور جائزہ لیا جائے تو عمران خان نے یہ انتخابی جنگ واضح اکثریت سے جیتی ہے۔ خان صاحب یہ انتخابی جنگ جیت چکے ہیں‘ اگرچہ وہ اب بھی الیکشن کمیشن پر طرفداری کے الزامات عائد کررہے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر دیا ہے مگر آزاد مبصرین نے حالیہ ضمنی انتخابات کی شفافیت پر شبہات ظاہر نہیں کئے‘لہٰذا خان صاحب اور ان کی جماعت کو الیکشن کمیشن کے کردار پر شبہات کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
اُدھر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت 11 افراد کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف یہ مقدمہ فارن ایکسچینج ایکٹ 1947ء کے سیکشن 420‘ 468‘ 471‘ 477 (اے)‘ 109اور 25کے تحت درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی کا الیکشن کمیشن میں جو بیان حلفی جمع کرایا تھا وہ جھوٹا اور جعلی ہے۔ابراج گروپ کی ذیلی کمپنی ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے ذریعے انصاف ٹرسٹ کو 22 ملین ڈالر کی رقوم بھجوائی گئیں‘ بعد ازاں مزید اتنی ہی رقوم دوبارہ اسی ٹرسٹ میں منتقل کرائی گئیں جو بقول ایف آئی اے منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہیں۔ممنوعہ فنڈنگ کیس میں خان صاحب اور دیگر افراد پر جو دفعات لگائی گئی ہیں‘ ان کے تحت کتنی اور کیا سزا ہو سکتی ہے‘ یہ ماہر قانون ہی بتا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں خان صاحب کے علاوہ جن دیگر شخصیات کے خلاف مقدمات درج کروائے ہیں‘ ان میں بعض ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جو سزا سے بچنے کے لیے خان صاحب کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بن سکتی ہیں۔ خان صاحب بھی اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کون کون اس کیس میں اُن کے خلاف گواہی دے سکتا ہے۔خان صاحب کو پیشگی اپنے کمزور مہروں پر کام کر لینا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں