"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی نااہلی اور مستقبل کا سیاسی منظر نامہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو سپیکر قومی اسمبلی کے بھیجے گئے توشہ خانہ ریفرنس میں بدعنوانی ثابت ہونے پر‘ کمیشن کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں‘ موجودہ اسمبلی کی مدت کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ عمران خان کے گوشواروں میں اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے گئے‘ پیش کردہ سٹیٹ بینک رپورٹ‘ تحائف کی قیمت سے مطابق نہیں رکھتی‘ الیکشن ایکٹ کی دفعات 137‘ 173 اور 174 کی خلاف ورزی کی گئی‘ تحائف کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم گوشوارے میں ظاہر نہیں کی گئی؛ آئین کے آرٹیکل 63 (1) پی کے تحت عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں۔ اس فیصلے کے مطابق عمران خان ضمنی انتخابات کی حاصل کردہ چھ نشستوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے 21 اکتوبر کو اس ریفرنس کا محفوظ فیصلہ سنایا۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ19 ستمبر کو محفوظ کیا تھا۔
اس فیصلے پر تحریک انصاف کی جانب سے ردعمل آیا‘پارٹی کارکنوں کی بڑی تعداد نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا بھی گھیراؤ کر رکھا تھا اور حیرانی اس بات پر ہوئی کہ وفاقی حکومت نے سکیورٹی کے جو انتظامات کیے ہوئے تھے وہ ہوا میں اڑا دیے گئے۔ یوں نظر آ رہا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ کے فیصلے کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حفاظت میں ناکام نظر آئے اور بعض لوگ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے گیٹ کو پھلانگتے ہوئے اندر داخل ہو گئے اور پولیس تماشائی کے طور پر کھڑی رہی۔اس موقع پر تحریک انصاف کے ارکانِ قومی اسمبلی بھی موجود تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی کے پولیس گارڈ نے گولی بھی چلا دی۔ ریڈ زون اور انتہائی حساس ادارے کے دروازے پر ایسے واقعات پیش آنا وزارت داخلہ کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی جن شقوں کے تحت فیصلہ دیا ان میں دفعہ 174 کی سیکشن ڈی بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں ٹیکس کی رقوم کو پوشیدہ رکھنا اور دیگر اہم نوعیت کے معاملات کا ذکر ہے۔ سب شق ڈی کا حوالہ دے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بادی النظر میں عمران خان کے مستقبل کے سیاسی سفر کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 173 اور 174 کے تحت بدعنوانی کا جرم ثابت ہونے پر عمران خان کو مجرم قرار دیا ہے جبکہ نااہلی آئین کے آرٹیکل 63 (1) پی کے تحت کی گئی ہے جس کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ137 اور 173 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے پیرا 35 میں کہا گیا ہے کہ یہ ریکارڈ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کابینہ ڈویژن سے حاصل کیا جو سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھیجا گیا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے دستیاب ریکارڈ اور فریقین کے وکلا اور عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان کی روشنی میں اور الیکشن کمیشن کی اپنی فائنڈنگ پر عمران خان کو نااہل قرار دے دیا گیا۔الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ وہ بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے جس پر ان کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 174 کی شق ڈی کے تحت مجرم قرار دیا گیا کیونکہ انہوں نے غلط بیانی کی اور اثاثہ جات کے درست گوشوارے جمع نہیں کرائے اور اثاثہ جات میں ان کی اہلیہ کوملنے والے58 تحائف کا ذکر بھی نہیں کیا گیا‘ دانستہ طور پر اثاثے پوشیدہ رکھے گئے۔
عمران خان اگرچہ پارلیمنٹ کی ممبرشپ سے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں لیکن وہ تحریک ِانصاف کے چیئرمین رہیں گے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 200 اور 203 میں ایسی کوئی شرط لاگو نہیں کی گئی کہ اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی پرپارٹی سربراہ کی حیثیت سے بھی مستعفی ہونا پڑے۔یہ شق انتخابی اصلاحات کمیٹی نے اکتوبر 2017ء میں حذف کر دی تھی۔ اگرچہ پولیٹکل پارٹیز آرڈیننس 2002ء کے آرٹیکل 3‘ 4 اور 5 میں یہ درج کیا گیا تھا کہ پارٹی کا ممبر بننے کے لیے قومی اسمبلی کے ممبر بننے کی شرائط پر پورا اترنا لازمی تھا اور اسی بنا پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فروری 2018ء میں فیصلہ دیا کہ چونکہ نواز شریف 27 جولائی 2017ء کو تاحیات نااہل ہو چکے ہیں ‘لہٰذا وہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر2002ء کے آرٹیکل 5 کے تحت سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے اور نہ ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ مقرر ہو سکتے ہیں؛چنانچہ نواز شریف فوری طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی سے سبکدوش ہو گئے اور شہباز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سربراہ منتخب کرایا گیا اور سینیٹ کے الیکشن کے لیے جن افراد کوٹکٹ جاری کئے گئے‘ چونکہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی پر نواز شریف کے دستخط تھے لہٰذا وہ غیر قانونی قرار دیے گئے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نامزد امیدواروں کو آزادانہ حیثیت سے سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینا پڑا اور اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا نے ان امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دیا۔ اب بھی یہ ارکان سینیٹ کے ریکارڈ کے مطابق آزاد سینیٹرز ہیں۔ بعد ازاں انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کر کے نااہلی کی شق حذف کر دی‘ لہٰذا عمران خان کی موجودہ نااہلی کا ان کی سیاسی سربراہی کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
عمران خان کے خلاف فیصلہ آنے پر تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بارے میں جن تاثرات کا اظہار کیا اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ افسوسناک ہے۔ اداروں پر تنقید کرنے سے ادارے مضبوط اور احتسابی عمل سے گزرتے ہیں لیکن جو بد زبانی کا اثر یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف جو احتجاج شروع ہوا تھا وہ بُری طرح ناکام ہو گیا اور مؤثر احتجاج کرانے میں پی ٹی آئی کو سبکی کا سامنا کرناپڑا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر فیصلہ کیا ہے اور ان کے فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی جاچکی ہے ‘ جس کی پہلی سماعت آج موقع ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان آئینی ادارہ ہے اور جو حضرات اس کے اختیارات کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہیں ان کو دستور پاکستان کے آرٹیکل 213 سے 222 تک کے آرٹیکلز کا جائزہ لینا چاہیے، نیز الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات ایک سے 241 تک کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہیے۔ اسی ایکٹ کی دفعہ 236 کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی کو کس کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ‘ البتہ اپیل کا حق موجود ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔بادی النظر میں چیلنج اور اپیل میں نمایاں فرق موجودہے۔
عمران خان موجودہ حالات میں اہم تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ بظاہران کی پارٹی میں اندرونی طور پر فکری تضاد پایا جاتا ہے اور عمران خان کے مستقبل کی راہ ہموار کرنے کے لیے چودھری پرویز الٰہی اور پرویز خٹک مفاہمت کی پالیسی اپنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔چونکہ قومی اداروں کو مملکت پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے لہٰذا پاکستان کے اہم ترین ادارے گہری نظر سے پاکستان کی ریاست کا مفاد دیکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کا روڈ میپ بنانے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں