"KDC" (space) message & send to 7575

کراچی کے بلدیاتی انتخابات اورسندھ حکومت

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تیسری بار کراچی میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیا گیا۔ یہ فیصلہ سندھ حکومت کے اس مؤقف کی بنیاد پر کیا گیا کہ کراچی کے اکثر پولنگ سٹیشن یا تو حساس یا انتہائی حساس ہیں اور صوبائی حکومت کے پاس وہاں پُرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے مطلوبہ تعداد میں پولیس کی نفری موجود نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ جب وزارتِ داخلہ سے کراچی میں انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے مطلوبہ فوج اور رینجرز کی فراہمی یقینی بنانے کا کہا گیا تو وزارتِ داخلہ نے مطلع کیا کہ پولیس نفری کی کمی کے پیش نظر فوج اور رینجرز پولنگ سٹیشنوں پر ڈیوٹی نہیں دے سکتے لہٰذا کمیشن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ فی الحال انتخابات ملتوی کردیے جائیں۔ اب انتخابات کی نئی تاریخ کا فیصلہ نومبر کے پہلے ہفتے میں کیا جائے گا۔ دوسری جانب پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن نے کہا کہ پنجاب حکومت سات روز میں بلدیاتی حکومت کا قانون بنائے ورنہ صوبے میں سابقہ قانون پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔ اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ اب ہم پنجاب حکومت کے ساتھ مزید کوئی اجلاس نہیں کریں گے‘ اب ہم فیصلہ کریں گے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس بھیجا جارہا ہے جس میں تفصیلاً لکھا جائے گا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ اس غیر سنجیدگی سے پنجاب حکومت آئین‘ قانون اور سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔واضح رہے کہ عمران حکومت نے اپریل 2019ء میں پنجاب کے مقامی حکومتوں کے ڈھانچے کو تحلیل کر دیا تھا۔ بعد ازاں 2020ء میں سپریم کورٹ کے حکم پر یہ ادارے بحال تو ہو گئے تھے لیکن پنجاب حکومت کی سرد مہری اور عدم تعاون کی پالیسی کی وجہ سے غیر فعال ہی رہے‘ قواعد و ضوابط کے مطابق انہیں فنڈز بھی جاری نہیں کیے گئے جس کے بعدیہ ادارے اپنی مدت پوری کرکے 31 دسمبر 2021ء کو قانونی طور پر تحلیل ہو گئے۔ اس دوران پنجاب حکومت نے اگست 2019ء میں مقامی حکومت ایکٹ بھی منظور کرایا لیکن اس ضمن میں جو قوانین بنائے گئے وہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 219 تا 229 سے متصادم تھے۔ بعد ازاں پنجاب حکومت نے مقامی حکومتوں کا ایکٹ 2020ء نافذ کیا لیکن وہ بھی بدانتظامی کا شکار ہو گیا اور اس دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان گاہے گاہے پنجاب حکومت کی توجہ آئین کے آرٹیکل 132 اور 140 (اے) کی طرف مبذول کراتا رہا جن میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات اور نچلی سطح تک انتظامی و مالیاتی اختیارات کی منتقلی کا روڈ میپ دیا گیا ہے لیکن صوبائی حکومتیں اس حوالے سے مسلسل گریزاں رہیں۔
2009ء میں پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد سے ملک میں لوکل گورنمنٹ کا نظام مفلوج ہی رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کی افادیت جانچنے کے لیے کہیں دور جانے کی کوئی ضرورت نہیں‘ بس اپنے مشرقی ہمسایے کی طرف ہی دیکھ لیا جائے۔ بھارت نے اپنے جغرافیے اور یونین سٹیٹ کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومتوں کا نظام اپنایا اور اب یہ نظام وہاں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کے مؤثر نظام کی وجہ سے نا صرف عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو رہے ہیں بلکہ مرکزی سرکار کا دردِ سر بھی کم ہوا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ نظام 2009ء سے غیر فعال ہو چکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں مسائل کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ حالیہ سیلاب کے دوران جبکہ ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا‘ حکومت کو امدادی کاموں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہی اگر ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام بحال ہوتا تو حکومت کو امدادی رقوم اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے میں آسانی ہو جاتی اور دوست ممالک کی طرف سے فراہم کردہ امداد کی تقسیم کے حوالے سے کوئی سوال بھی نہ اُٹھتا۔
اُدھر پی ٹی آئی نے 16 اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں برطرفی کا ریفرنس دائر کرا دیا ہے۔ ویسے تو یہ ریفرنس ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے ایک روز بعد 3 اگست کو دائر کرایا گیا تھا جسے بعد ازاں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے واپس لیتے ہوئے کہا گیا تھاکہ اس میں مزید نکات شامل کیے جائیں گے۔ اس نئے دائر کردہ ریفرنس میں پی ٹی آئی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ جانبدار ہیں اور مبینہ جانبداری کے باعث وہ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں۔ ریفرنس میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے 123 ارکان قومی اسمبلی نے استعفے دیے جو الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے لیکن چیف الیکشن کمشنر نے یہ استعفے منظور کرکے ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری نہیں کیا اور اس طرح انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے لیکن اگر زمینی حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو قاسم سوری نے بطور قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی جو استعفے منظور کیے تھے وہ قومی اسمبلی کے سیکرٹری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نہیں بھجوائے تھے اور بعد ازاں راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے سپیکر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قاسم سوری کی جانب سے اجتماعی استعفے منظور کرنے کے بارے میں فیصلہ موخر کرتے ہوئے پارلیمنٹ ایکٹ کے مطابق ان تمام استعفوں پر ازسر نو غور کرنے کے لیے 123ارکانِ قومی اسمبلی کو فرداً فرداً نوٹس جاری کیے تھے اور بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قاسم سوری کی جانب سے جو 123استعفے منظور کیے تھے‘ انہیں خلافِ قانون قرار دے دیا تھا جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے 11ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیے تھے جس کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان ارکان کی نشستیں خالی قرار دے کر 16 اکتوبر کو ضمنی انتخابات کرائے اور عمران خان ان ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے چھ حلقوں سے کامیاب ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد خان صاحب نے اپنی میانوالی والی نشست برقرار رکھی تھی‘ اب آرٹیکل 223کے تحت اُن کو میانوالی سمیت چھ نشستوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ آئین کے مطابق انہیں الیکشن کے بعد تیس دن کے اندر اندر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک نشست رکھنے کے بارے میں اطلاع دینا ہو گی لیکن اگر عمران خان نے 30دنوں کے اندر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلع نہیں کیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان میانوالی کی نشست سمیت باقی نشستوں کو بھی خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دے گا ماسوائے اُس نشست کے جس پر خان صاحب نے سب سے آخر میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔ چونکہ عمران خان نے جیتی ہوئی نشست پر حلف نہیں اٹھانا لہٰذا ان کی وہ نشست اُس وقت تک برقرار رہے گی جب تک نئے انتخابات کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ قانونی طور پر وہ ممبر قومی اسمبلی تو نہیں ہوں گے لیکن منتخب شدہ ممبر قومی اسمبلی کے لقب سے پکارے جائیں گے۔ اسی طرح ان کو الیکشن کے اخراجات کے بارے میں بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 132اور 134کے مطابق اپنے اخراجات کی تفصیل متعلقہ ریٹرننگ افسران کے پاس جمع کرانا ہوں گی لیکن اگر انہوں نے سیکشن 132 کی پاسداری نہیں کی تو ریٹرننگ افسران ان کے خلاف کرپٹ پریکٹس کی دفعہ 183کے تحت مقدمہ درج کرانے کے مجاز ہوں گے جس کے تحت امیدوار کو تین سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ عمران خان یونیورسٹیوں میں خطاب بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح طالب علموں کو یقینا ملکی حالات کا ادراک ہوتا ہے لیکن خان صاحب کو درسگاہوں میں اپنے خطاب کے دوران اپوزیشن پر تضحیک آمیز گفتگو سے گریز کرنا چاہیے۔ اپوزیشن پر تنقید کرنے کے لیے عام جلسے ہی کافی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں