"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ کا فل کورٹ کمیشن

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان پر ہوئے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر بالآخر پانچ روز بعد درج ہو چکی ہے۔ یہ ایف آئی آر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے انتباہ کے بعد پنجاب پولیس نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302‘ 324 اور 440 کے تحت درج کی ہے جس میں زیر حراست ملزم نوید کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط کے ذریعے استدعا کی ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کے حقائق جاننے کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔امید کی جانی چاہیے کہ عمران خان پر ہوئے حملے کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے جلائو گھیراؤ اور سڑکوں کی بندش کو جو سلسلہ پچھلے کئی روز سے جاری تھا‘ وہ ختم ہو جائے گا۔عمران خان صاحب نے خود بھی کارکنوں کو اس سے منع کیا ہے۔دوسری جانب‘ عمران خان پر قاتلانہ حملے کے مقدمے میں پراسکیوشن نے مقدمے کی پیروی کے لیے تین رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔یہ کمیٹی جے آئی ٹی اور تفتیشی افسر کو شواہد جمع کرنے کے حوالے سے معاونت فراہم کرے گی‘ کمیٹی میں حافظ اصغر علی‘ رانا سلطان اور زاہد سرفراز شامل ہیں۔یہ پراسیکیوشن کمیٹی مقدمے کی پیروی کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت میں بھی پیش ہوگی‘ پراسکیوٹر جنرل پنجاب نے کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
اپنے اوپر ہوئے حملے کے بعد‘ جس کا ملزم نہ صرف موقع پر ہی گرفتار ہو گیا تھا بلکہ اُس نے اعترافِ جرم بھی کر لیا تھا‘ خان صاحب کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف‘ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ایک اعلیٰ افسر کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی نہ صرف وزیراعظم شہباز شریف‘ رانا ثنا اللہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے سخت تردید کی گئی بلکہ وفاقی حکومت اور پاک فوج کے ترجمان نے پنجاب حکومت سے واقعہ کی شفاف تحقیقات کروانے کا مطالبہ بھی کیا تھا تاکہ الزام تراشی کا سلسلہ رُک سکے۔ مگر جب تمام تر یقینی دہانیوں کے باوجود تحریک انصاف کی طرف سے بلا تحقیقات الزام تراشی کا سلسلہ کسی طرح رکنے میں نہ آیا اور ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا تو وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ آئی ایس پی آر کے بیان کی روشنی میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ریاست اور اداروں کے خلاف بیانات پر قانونی کارروائی کی جائے گی‘ کارروائی کرنے کے لیے آئینی اور قانونی ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں جلاؤ، گھیراؤ اور پرتشدد سرگرمیوں پر وفاقی حکومت کی جانب سے اپنے اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
عمران خان صاحب پر ہونے والا حملہ انتہائی قابلِ مذمت ہے لیکن حملے کا مرکزی ملزم گرفتار ہونے کے بعد بھی خان صاحب کی طرف سے جو انگلیاں اٹھائی گئیں‘ یہ افسوسناک ہے۔ خان صاحب بارہا کہتے رہے ہیں کہ کچھ حلقوں کی طرف سے ملک میں جمہوری عمل کو چلنے نہیں دیا جا رہا اور یہ کہ چند افراد نے انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے‘ جس کے حوالے سے بقول خان صاحب وہ ایک وڈیو بنا چکے ہیں جو کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں جاری کی جائے گی۔ مجھے یہاں حکومت کی عقل و دانش سے محرومی پر حیرانی ہو رہی ہے کہ وہ اداروں پر الزام تراشی کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں کیوں ہے۔ حکومت آئین کے آرٹیکل 63 ون بی کے تحت اداروں کے خلاف بلا تحقیق الزام تراشی کرنے والوں کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھجواسکتی ہے کہ اداروں کے خلاف یہ جو مضحکہ خیز مہم چلائی جا رہی ہے‘ اُس کے ثبوت پیش کیے جائیں‘ اور ثبوت پیش کرنے میں ناکامی کی صورت میں آئینی طور پر تجویز کردہ سزا کے لیے بھی تیار رہا جائے۔
اُدھر اگر خان صاحب کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کا جائزہ لیا جائے تو اُن میں ماسوائے اندازوں اور قیاس آرائیوں کے کچھ حقیقت نظر نہیں آتی۔ کسی بھی واقعہ کی شفاف تحقیقات کا آئینی اور قانونی طریقہ تو یہ ہے کہ مدعی سب سے پہلے قانونی کارروائی کے عمل میں شامل ہو۔ مدعی کے پاس اگر اُس واقعہ کے حوالے سے کوئی ثبوت موجود ہیں تو اسے متعلقہ تفتیش کاروں کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ صحیح خطوط پر تفتیش کر سکیں۔ اور اگر معاملہ قومی سطح کے لیڈرز کا ہو تو اس طرح کے واقعات کی حساسیت اور بھی بڑھ جاتی ہے‘ اسی لیے ایسی صورتحال میں تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں الزام تراشیوں کی روایت بہت پرانی ہے۔یہاں سیاسی مفادات کی خاطر ہر قسم کی بیان بازی اور الزام تراشی کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاملہ اگر سیاست تک ہی محدود رہتا تو بھی قابلِ برداشت تھا لیکن جب ریاستی ادارے بھی اس کی لپیٹ میں آنے لگیں تو یہ ملکی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرنے کے مترداف ہے۔ کسی بھی ریاست کا وجود اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس کی مسلح افواج مضبوط و مستعد اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہوں اور انہیں اپنے عوام اور حکمرانوں کی نصرت و تائید حاصل ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف‘ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے اپنے اور اداروں کے خلاف عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کے لیے فل کورٹ کمیشن تشکیل دینے کی درخواست بھی کر چکے ہیں۔ اگر وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان فل کورٹ کمیشن تشکیل دے دیتے ہیں تو اس سے خان صاحب پر ہوئے حملے کی اُلجھی گتھیاں سلجھ سکتی ہیں۔ شاید شفاف تحقیقات کے بعد ہی تحریک انصاف کی طرف سے اداروں پر الزام تراشی کا سلسلہ تھم جائے۔کیونکہ ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارے ایسے کسی عمل میں شریک نہیں ہو سکتے جس سے ملک کے داخلی استحکام کو کوئی زک پہنچنے کا احتمال ہو۔ ہم ماضی کے فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی انتظامی پالیسیوں سے تو اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں کئی سوالات نے جنم لیا لیکن حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد اس سانحے کے پس پردہ مضمرات کی ساری حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ میری ناقص رائے میں وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے جو فل کورٹ کمیشن بنانے کی استدا کی ہے‘ہو سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکیں لیکن خان صاحب کی طرف سے جو سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں ان کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی ہی چاہئیں۔
دوسری جانب سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جمعرات کے روز سے اپنا لانگ مارچ دوبارہ وزیرآباد سے ہی شروع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔میری رائے میں ملک میں امن و امان کی جو موجودہ صورتحال ہے اُس کے پیش نظر اگر اس لانگ مارچ کو کچھ عرصہ کے لیے موخر کر دیا جاتا تو بہتر تھا لیکن اگر خان صاحب اسے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر ہی چکے ہیں تو انہیں اسے پُر امن رکھنے کا بھی پورا انتظام کرنا چاہیے تاکہ ملک مزید کسی عدم استحکام کی جانب نہ جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں