"KDC" (space) message & send to 7575

نئے انتخابات کیلئے درمیانی راستے کی تلاش

اس وقت پورا ملک مسلسل سیاسی انتشار کا شکار ہے‘ اس سیاسی گرما گرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اتحادی حکومت اپنی اور عمران خان اپنی مرضی سے نیا آرمی چیف تعینات کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ آئینی طور پر وزیراعظم شہباز شریف ہی اس تعیناتی کے حوالے سے فائنل اتھارٹی ہیں۔ اس تعیناتی کے حوالے سے اتحادی حکومت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ صرف سنیارٹی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ حالیہ دنوں وزیراعظم شہباز شریف‘میاں نواز شریف سے اہم امور پر تبادلۂ خیال اور مشورے کیلئے لندن گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس دوران ہونے والی ملاقاتوں اور پارٹی اجلاس میں نئے چیف کی تعیناتی کا معاملہ بھی زیر بحث رہا جس میں سب سے زیادہ تجربہ رکھنے والے افسر کوہی چیف آف آرمی سٹاف بنائے جانے کی حمایت کی گئی‘ لیکن دوسری طرف عمران خان مسلسل سوالات اٹھارہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے یہ ایک روٹین کی تعیناتی‘ آئینی طور پر جس کا مکمل استحقاق وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہے‘ گزشتہ کچھ ماہ سے بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ دونوں فریقوں کی طرف سے اس تعیناتی پر ہونے والی بیان بازی کا واحد مقصد اپنے سیاسی مقاصد کا حصول یقینی بنانا ہے‘لیکن شاید دونوں فریق یہ بھول رہے ہیں کہ اس عہدے پر تعینات ہونے والی شخصیت کا نصب العین ملک و قوم کی سلامتی یقینی بنانا ہوتا ہے نہ کہ سیاسی پارٹیوں کی مرضی و منشا پر پورا اترنا۔
اُدھر لاہور ہائی کورٹ میں چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی سنیارٹی کی بنیاد پر کرنے کے لیے دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔ درخواست گزار کی طرف سے درخواست میں وفاقی حکومت‘ وفاقی سیکرٹری قانون‘ صوبائی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ صوبائی سیکرٹری قانون اور سینئر قانون دان اعتزاز احسن کو فریق بنایا گیا ہے۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں‘ آرمی چیف کی تقرری کا روایتی طریقہ کار غیرقانونی اور غیر آئینی ہے جبکہ وفاقی حکومت نئے آرمی چیف کی تقرری قانون کے مطابق کرنے کی پابند ہے۔درخواست میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وزارتِ دفاع کی جانب سے تجویز کردہ ناموں میں سے آرمی چیف مقرر کرنے کا اختیار وزیراعظم کو ہے جوکہ اپنی مرضی کا نام ہی منتخب کریں گے‘ لہٰذا لاہور ہائیکورٹ سینئر ترین افسر کوہی نیا آرمی چیف مقرر کرنے کا حکم دے۔یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر‘ وزیر اعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔رولز آف بزنس کا شیڈول 5اے‘ وزیر اعظم کو آرمی چیف کی منظوری کے لیے پیش کیے جانے والے کیسز کی وضاحت کرتا ہے جس کے مطابق فوج میں لیفٹیننٹ جنرل یا دفاعی سروسز میں اس کے مساوی عہدے پر تقرر ی وزیراعظم‘ صدر سے مشاورت کے بعد کرتا ہے۔ اس تبدیلی کے عمل کی ملک کے لیے کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل احسان الحق کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے ایک ملاقات کے دوران مجھ سے کہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی تبدیلی سے ادارے میں بہت کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ نئی سوچ بھی آتی ہے جس سے سابق آرمی چیف کی ڈاکٹرائن تبدیل ہو جاتی ہے۔
آرمی چیف کی تعیناتی سے ہٹ کر دوسری جانب یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عمران خان کے حلقۂ احباب میں موجود چند بااثر شخصیات کی وجہ سے اُن کے دورِ حکومت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان بعض اہم فیصلے کرنے سے قاصر رہا۔ خان صاحب کے جاننے والوں کا دائرۂ اثر دیگر پالیسی ساز اداروں تک بھی پھیلا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس وقت کی اپوزیشن کو اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آنے لگا تھا۔ بظاہر یہی خوف تھا جس کی وجہ سے اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977ء میں بننے والے پاکستان قومی اتحاد کے پس پردہ بھی یہی محرکات تھیں۔ اُس قومی اتحاد نے پہلے مشترکہ طور پر مسٹر بھٹو کے خلاف بھرپور الیکشن مہم چلائی اور بعد ازاں اُن کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کیا جس کے ذریعے مسٹر بھٹو اقتدار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ شاید عمران خان حکومت کی رخصتی پر پی ڈی ایم کی جماعتوں کے اتفاقِ رائے کی بھی یہی وجوہات رہی ہوں گی۔ اسی مقصد کے لیے مسلم لیگ (ن) نے ملک کا اقتدار سنبھالا اور ان نازک حالات میں کئے گئے فیصلوں کی بدولت اپنے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگانے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس دوران عمران خان کے اتحادیوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے تحریک عدم اعتماد کی راہ مزید ہموار کر دی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے اپوزیشن حکومت میں تو آ گئی لیکن میرے نزدیک اپوزیشن کا سیاسی فائدہ یقینا اسی میں تھا کہ وہ عمران خان کو اگست 2023ء تک حکومت کرنے دیتی اور پھر آئندہ عام انتخابات کے لیے میدان میں آ جاتی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہو جاتی‘ مگر عمران خان کے مشیروں اور سوشل میڈیا سیل نے ایسی مہم چلائی جس سے اپوزیشن کو شاید یہ تاثر ملا کہ عمران خان نومبر میں ایسی تعیناتی کرنے جا رہے ہیں جس سے اُن کا اقتدار 2028ء تک طوالت اختیار کر جائے گا‘ جس پر اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے بھرپور زور لگایا اور اس میں کامیاب بھی رہی۔ وزراتِ عظمیٰ کے عہدے سے محرومی کے بعد اصولی طور پر اور جمہوری طرزِ عمل کے مطابق عمران خان کو متحدہ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جس سے وہ اپنی پارلیمانی طاقت کے ذریعے ملک میں عام انتخابات کے جلد انعقاد کو یقینی بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے پارلیمانی طاقت کو بروئے کار نہ لا کر ملک میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیا جوکہ آغاز میں تو کامیاب ہوتا نظر آیا لیکن اب تحریک انصاف کا لانگ مارچ جس طرح ایک فلاپ شو ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے اُس سے خان صاحب خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کر سکیں گے۔
ملکِ عزیز اس وقت بدترین سیاسی خلفشار کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن سرے سے نہیں۔ تقریباً ہر قومی سیاسی جماعت کہیں نہ کہیں حکمران ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے اپنے اپنے حامی اینکرز ہیں جو اُس جماعت کے بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اُدھر سوشل میڈیا پر گالی بریگیڈ مکمل آزادہے جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ہر طرف سیا سی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ سنجیدگی اور تدبر کو بزدلی سمجھا جا رہا ہے۔ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکمرانی کی خراب کارکردگی کا سارا ملبہ یہ کہہ کر کہ حکومت اُن کی تھی لیکن اختیار کسی اور کا تھا‘ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔وہ یہ مؤقف اختیار کرکے خود سرخرو ہو گئے ہیں۔اگر سب بڑے سیاسی رہنما اپنی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے یونہی پردہ پوشی کرتے رہیں گے تو ملک صحیح راستے پر کیونکر گامزن ہو سکے گا۔ لہٰذا تمام سیاسی رہنمائوں کے لیے ایسا احتسابی نظام لانے کی ضرورت ہے جس سے ملک میں موروثی اور کرپٹ اشرافیہ کا اثر زائل ہو سکے۔موجودہ سیاسی بحران میں صدر عارف علوی کا مفاہمتی فارمولا ناکام ہوچکا ہے۔وہ ملک میں انتخابات کے جلد انعقاد کے لیے کسی درمیانی راستے کی تلاش میں تھے کیونکہ عمران خان جلد نئے انتخابات چاہتے ہیں لیکن اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل پر ہی انتخابات کرانے کی خواہاں ہے۔سندھ ہائیکورٹ کی کارروائی کے بعد کراچی میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے لیکن اگر اس دوران عام انتخابات کے جلد انعقاد کا کوئی راستہ نکل آیا تو پھر مقامی حکومتوں کے انتخابات ایک بار پھر مؤخر ہو جائیں گے‘ لیکن میرے نزدیک عام انتخابات کا جو بھی مستقبل ہو مگر مقامی حکومتوں کے انتخابات مزید تاخیر کا شکار نہیں ہونے چاہئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں