"KDC" (space) message & send to 7575

توشہ خانہ کی رقوم وقف کر دیں

قومی احتساب بیورو نے چند روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان‘ ان کی اہلیہ اور کابینہ کے اراکین کو ملنے والے تحائف کی اصل مالیت ظاہر نہ کرنے پر اُن کے خلاف نوٹس لے لیا ہے۔احتساب بیورو کے مطابق عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ملنے والے تحائف کی مالیت اور فروخت میں واضح فرق موجود ہے۔ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی جانب سے تین قیمتی گھڑیوں کی انڈر انوائسنگ کا انکشاف ہوا ہے‘ توشہ خانہ سے تحائف خریدتے ہوئے عمران خان نے رقوم کی ادائیگی بھی کسی اور کے اکاؤنٹ سے کی۔اسی سلسلے میں عمران خان کے توشہ خانہ سے حاصل شدہ تحائف کے حوالے سے مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔واضح رہے کہ کچھ روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ کے لیے توشہ خانہ ریفرنس بھی ٹرائل کورٹ کو بھیج دیا گیا ہے۔توشہ خانہ ریفرنس کیس میں الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ ٹرائل کورٹ عمران خان پر کرپٹ پریکٹس کا ٹرائل کرے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ ماہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو نااہل قرار دیا تھا جبکہ ان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دیتے ہوئے فوجداری کارروائی شروع کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
میری اطلاعات کے مطابق توشہ خانہ سے حاصل شدہ جن تحائف کی دستاویزی تفصیل قومی احتساب بیورو تک پہنچی ہے اُن میں گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور کے افتتاح کے موقع پر ملنے والے بعض تحائف بھی شامل ہیں جو سکھ کمیونٹی کے قائدین نے وزیراعظم عمران خان کودیے تھے۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ملنے والے تحائف کی اصل مالیت اور فروخت میں فرق سامنے آنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63(ون) (بی) اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 127‘ 167‘170‘ 173 اور174 کے تحت سنایا تھا۔ الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں لگے فوجداری مقدمے کی کارروائی کی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 190 اور 191 کے تحت مانیٹرنگ بھی کر رہا ہے۔ اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں بھی عمران خان بدعنوانی کے مرتکب قرار پاتے ہیں تو عدالت انہیں سزا دینے کی مجاز ہے۔
دوسری جانب توشہ خانہ سے حاصل شدہ گھڑی کے مبینہ خریدار عمر فاروق ظہور نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنہوں نے یہ گھڑی 20لاکھ ڈالر کیش کے عوض فرح خان سے خریدی۔ اُنہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس گھڑی کی خریداری کی باقاعدہ رسید بھی اُن کے پاس موجود ہے اور یہ کہ توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں اگر عدالت اُن سے کوئی دستاویزی ثبوت مانگتی ہے تو وہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ گھڑی کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کس چینل سے ملک میں منتقل کی گئی کیونکہ اتنی بڑی رقم کیش میں لانا تو سیدھا سیدھا منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ جاری کرنے سے پہلے سٹیٹ بنک آف پاکستان اور کیبنٹ ڈویژن سے بھی تفصیلات حاصل کی تھیں لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس رقم کی پاکستان میں منتقلی ان کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہے۔ اگر یہ گھڑی عمران خان کی رضا مندی سے دبئی میں فروخت کی گئی ہے تو اس کی فروخت سے حاصل شدہ رقم‘ جوکہ کروڑوں روپے بنتی ہے‘ کا ذکر عمران خان نے اپنے سالانہ گوشواروں میں کیوں نہیں کیا؟
عمران خان اپنے چند دوستوں کی وجہ سے مالی بدعنوانی کے کیس میں پھنستے چلے جا رہے ہیں کیونکہ عمر فاروق ظہورکے دعووں کے بعد عمران خان پر سوال اٹھنا شروع ہو چکے ہیں کہ اگر اُنہوں نے سعودی پرنس کی وزیراعظم پاکستان کو تحفہ میں دی ہوئی گھڑی عمر فاروق کو فروخت نہیں کی تو پھر یہ ان تک کیسے پہنچی؟ ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں یہ حقائق سامنے آنے کے بعد خان صاحب نے پروگرام کے اینکر اور چینل کے خلاف نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ اور عرب امارات میں مقدمہ درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے‘لیکن میری رائے میں خان صاحب کو کسی کے بھی خلاف مقدمہ درج کروانے کے بجائے میڈیا سے براہِ راست دستاویزات کے ہمراہ مکالمہ کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ مقدمے سے نیا پنڈروا بکس کھل جائے گا اور سعودی حکومت کو بھی یہ ناخوشگوار لگے گا۔ اب بھی اس بحث کے بعد اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور حکومت کے ہاتھ بھی عمران خان کے خلاف نیا ہتھیار آ گیا ہے۔
توشہ خانہ کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر حکمران نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن اُن میں سے زیادہ تر نے توشہ خانہ سے حاصل شدہ اشیا کو فروخت کرنے کے بجائے ذاتی تصرف میں رکھا‘ شاید یہی وجہ سے کہ اس سے پہلے توشہ خانہ کے حوالے سے اتنا شور کبھی نہیں مچا۔ سعودی فرمانروا کے تحفے کی فروخت پر جو واویلا ہو رہا ہے وہ بھی پہلے کبھی نہیں ہوا۔اگر پاکستانی حکمرانوں کو ماضی میں ملنے والے تحائف کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1954ء میں جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا تو شاہ عبدالعزیز بن سعود نے ملک غلام محمد کو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریب ایک محل تحفے میں دیا تھاجسے ملک غلام محمد نے اُسی وقت مملکت پاکستان کے نام کر دیا جس پر شاہ عبدالعزیز بن سعود نے ان سے کہا کہ انہوں نے یہ محل انہیں ذاتی حیثیت سے تحفہ کیا ہے تو ملک غلام محمد نے جواباً کہا کہ اگر میری کوئی حیثیت ہے تو وہ مملکتِ پاکستان سے منسوب ہے۔ بعد ازاں جب یہ محل مسجد نبوی کی توسیع کے لیے گرانا پڑا تو پاکستانی سفارت خانے کو اس محل کے عوض خطیر رقم ادا کی گئی‘ اُسی رقم سے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے قریب دو بڑی عمارتیں خریدیں گئیں جو آج بھی پاکستان ہاؤس کے نام سے وہاں موجود ہیں۔ ان عمارتوں کا کرایہ حاجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے 1997ء میں جب عمرہ ادا کیا تو میں خود فیملی سمیت مدینہ منورہ میں اسی پاکستان ہاؤس میں مقیم رہا تھا۔ اسی طرح بیگم رعنا لیاقت علی خان جب ہالینڈ میں پاکستان کی سفیر تھیں تو ہالینڈ کی ملکہ نے ان کو ایک محل تحفے میں دیا جو بیگم رعنا لیاقت نے ریاستِ پاکستان کو وقف کر دیا۔ آج بھی اسی محل میں پاکستانی سفارت خانہ موجود ہے۔ یہ روایات بعد میں آنے والے کسی بھی پاکستانی حکمران نے برقرار نہیں رکھیں۔ میرے نزدیک عمران خان کو بھی چاہیے تھا کہ توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کر دیتے۔ اس کا عوام پر بھی اچھا تاثر پڑتا اور اُن کی صادق اور امین کی شہرت بھی برقرار رہتی۔ایسا کرنے سے ان کے خلاف کوئی کیس بھی نہ بنتا۔ وہ چاہیں تو اب بھی توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت سے حاصل شدہ رقم عطیہ کر سکتے ہیں۔
خان صاحب کو اپنی جماعت کے اندرونی اختلافات کا بھی ادراک ہونا چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ فیصل واوڈا اور خرم حمید روکھڑی کے بعدان کے لگ بھگ 20مزید امیدوار ان سے علیحدہ ہونے کا سوچ رہے ہیں اور نئی پارٹی میں شمولیت کے لیے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں فارورڈ بلاک بننے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ توشہ خانہ ریفرنس کے بعد خان صاحب کو اپنی جماعت کی چار شخصیات کے حصار سے باہر نکلنا چاہیے۔ اُن کی پارٹی کی جو شخصیات عمر فاروق ظہور سے رابطے میں رہی ہیں انہیں بھی پارٹی سے چلتا کریں۔ وہ اب بھی لانگ مارچ کو فیصلہ کن بنا سکتے ہیں لیکن اُس کے لیے اُنہیں پہلے اس چار کے ٹولے کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنی ماضی کی غلطیوں سے رجوع کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں