"KDC" (space) message & send to 7575

نئی تعیناتیاں اور سیاسی رسہ کشی

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اقتدار سے سبکدوشی کے بعد مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کے بارے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد جہاں ایک طرف حکومتی عہدیداروں نے خان صاحب کے خلاف سخت تنقید کرنا شروع کر دی وہیں عوام بھی ذہنی الجھن کا شکار ہوئے۔ یہ کیس اب بینکنگ کورٹ اسلام آباد میں زیر سماعت ہے اور گزشتہ سماعت پر بینکنگ کورٹ نے اس مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر ملزمان کی عبوری ضمانت میں 14 دسمبر تک توسیع کر دی ہے۔ خان صاحب کو ادراک نہیں کہ اس کیس کے فیصلے سے اُن کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں جو دلائل دیے وہ مسترد کر دیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے دو اگست کے فیصلے میں عمران خان کو حقائق چھپانے کے جرم میں بدعنوانی کا مرتکب قرار دے دیا تھا۔ اب توشہ خانہ سے سعودی پرنس محمد بن سلمان کی وزیراعظم پاکستان کو دی گئی گھڑی سمیت دیگر تحائف کو دبئی میں فروخت کرنے کا معاملہ زیر بحث ہے۔ شنید ہے کہ اس قیمتی گھڑی سمیت دیگر تحائف کی فروخت کے لیے سفارتی پاسپورٹ پر چارٹرڈ طیارے سے دبئی کا سفر کیاگیا اور اُسی چارٹرڈ طیارے پر ڈالر واپس آئے۔ شاید توشہ خانہ کیس آنے والے دنوں میں ممنوعہ فنڈنگ کیس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جائے۔
واضح رہے کہ 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے اپنے مالی اثاثوں سے متعلق حقائق چھپائے اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا بیان جمع کرایا‘ جھوٹ بولنے پر عمران خان عوامی نمائندگی کے اہل نہیں رہے۔عمران خان کی نااہلی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے لیکن دوسری جانب نیب نے توشہ خانہ کیس کی تحقیقات شروع کررکھی ہیں۔قومی احتساب بیورو عمران خان کے توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف کی قیمتوں کے تخمینے کے معاملے کی چھان بین کررہا ہے۔خان صاحب کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا کیس بھی زیر سماعت ہے‘ اس کیس میں اگر فیصلہ خان صاحب کے خلاف آتا ہے تو اُس سے بھی ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی خان صاحب کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں۔ عمران خان کی پالیسیوں سے اُن کا ووٹر بھی تذبذب کا شکار ہے۔ خان صاحب کے مداح بھی اُن کی جماعت میں بعض بدعنوان شخصیات کی موجودگی کی وجہ سے تحریک انصاف سے بدظن ہیں اور عمران خان اُن افراد کو جماعت سے نکالنے پر تیار نہیں۔ خان صاحب کے مشیر مشکل کی اس گھڑی میں اُن کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آ رہے۔ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ اتحادی حکومت میں وہ دم خم ہی نہیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے لیکن اگر کسی سخت کارروائی کا آغاز ہو گیا تو خان صاحب کے گرد موجود چند ایک نام نہاد الیکٹ ایبلز بھی اُن کا ساتھ چھوڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
عمران خان نے آج‘ 26نومبر کو اپنے کارکنان کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دے رکھی ہے جہاں وہ اپنے حقیقی آزادی لانگ مارچ کا جلسہ کریں گے۔ شنید ہے کہ تحریک انصاف کے راولپنڈی میں اس پاور شو کا مقصد طاقتور حلقوں کو عوامی مقبولیت دکھانا ہے۔ وفاقی حکومت تحریک انصاف کی قیادت کو لانگ مارچ میں سکیورٹی خدشات سے آگاہ کر چکی ہے‘ اس کے باوجود تحریک انصاف اپنا پاور شو کرنے پر مُصر ہے جس کے بعد ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے پاکستان تحریک انصاف کو فیض آباد انٹرسیکشن کے قریب جلسے کی مشروط اجازت دے دی۔اس صورتحال کے تناظر میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے 56 شرائط کے ساتھ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دی ہے۔نوٹی فکیشن کے مطابق انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی 27 نومبر کو آمد کے پیش نظر 26 کی رات جلسہ گاہ خالی کرنا ہوگی۔خان صاحب کے اس لانگ مارچ کا مقصد قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ لینا ہے لیکن خان صاحب نے ابھی تک شفاف انتخابات کا روڈ میپ قوم کو نہیں دیا۔ گمان ہے کہ اگر خان صاحب کو نئے انتخابات کی کوئی تاریخ نہیں دی جاتی تو وہ پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ گوکہ وہ آئینی و قانونی طور پر کوئی اختیارہی نہیں رکھتے اور آئین و قانون میں یہ اختیار صرف وزرائے اعلیٰ کو ہی تفویض ہے۔ عین ممکن ہے کہ وزرائے اعلیٰ عمران خان کے احکامات پر عمل درآمد سے انکار کر دیں۔اس صورت میں ایک نئی سیاسی کشا کشی شروع ہو سکتی ہے۔ اصولی طور پر جب تک نئی مردم شماری کے اعداد و شمار نہیں آ جاتے تب تک نئے انتخابات کا انعقاد مشکل نظر آتا ہے۔
دوسری طرف ملک میں نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری عمل میں آ چکی ہے جس سے ملک میں اس حوالے سے ہونے والے مباحثوں کا سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل عاصم منیر ملک کی بَری فوج کی کمان سنبھالیں گے جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا گیا ہے۔نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر منگلا ٹریننگ سکول سے پاس آؤٹ ہیں اور انہوں نے فوج میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہیں جو ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی میں رہ چکے ہیں۔ وہ پہلے آرمی چیف ہیں جو اعزازی شمشیر یافتہ بھی ہیں۔ جبکہ نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز 8 سندھ رجمنٹ سے کیا اور وہ پی ایم اے سے تربیت مکمل کرکے پاک فوج میں شامل ہوئے ہیں۔جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ٹی ٹی پی اور دیگردہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشنز سپروائز کیے اور وہ انٹرا افغان ڈائیلاگ میں بھی متحرک کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ چند روز سے یہ مباحثے جاری تھے کہ شاید صدرِ مملکت ان تقرریوں سے متعلق سمری پر دستخط نہیں کریں گے اور اس معاملے کو التوا میں ڈالیں گے لیکن جمعرات کو صدر مملکت عارف علوی نے لاہور کا ایک مختصر دورہ کیا جہاں انہوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے اس معاملے پر تقریباً 45 منٹ گفتگو کی اور دارالحکومت واپسی پر تقرری کی سمری پر دستخط کر دیے جس سے یہ عمل بغیر کسی تاخیر کے اپنی تکمیل کو پہنچا۔تاہم یہ بات اب تک غیر واضح ہے کہ آخر پی ٹی آئی قیادت کے مؤقف میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے اور اس معاملے پر تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی جانب سے محاذ آرائی کا راستہ نہ اپنانے کے فیصلے نے بہت سے مبصرین کو حیران بھی کیا ہے۔ گوکہ خان صاحب کا تقرری میں کوئی کردار نہیں تھا لیکن ابتدائی طور پر یہ خطرات ضرور لاحق تھے کہ وہ فیصلوں کو چیلنج کر کے متنازع بنا سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ اب یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو چکا ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اپنے الوداعی خطاب میں فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کا عزم بھرپور طریقے سے دہرا چکے ہیں‘ اس لیے اب امید کی جانی چاہیے کہ اس یقینی دہانی کے بعد اداروں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات کا سلسلہ رک جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں