"KDC" (space) message & send to 7575

صوبائی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل اورانتخابات

26نومبر کو راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد نہ جانے اور تمام صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلیوں سے استعفوں کی حتمی تاریخ کا اعلان پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے جب سے اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں اجتماع کا اعلان کیا تھا تو خان صاحب کے اگلے لائحہ عمل کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ ''حقیقی آزادی مارچ‘‘ کے آغاز سے ایسا لگ رہا تھا کہ خان صاحب وفاقی دارالحکومت پہنچ کر دھرنا دیں گے اور پھر الیکشن کی تاریخ لے کر ہی واپس لوٹیں گے۔ اپنے ''حقیقی آزادی مارچ‘‘ کے آغاز سے قبل خان صاحب نے ملک بھر میں جلسے کیے اور اس عرصے میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی بھی سمیٹی۔ عمران خان انہی انتخابی نتائج اور اپنے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد کی بنا پر حکومت سے جلد انتخابات کا مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں مگر 26نومبر کو راولپنڈی میں عمران خان نے جو کہا‘ وہ شاید بہت سے سیاسی ماہرین کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے پارلیمانی نظام کا حصہ نہ رہنے اور اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ پارٹی قیادت سمیت پی ڈی ایم کے لیے بھی حیران کن تھا۔
خان صاحب کے اس اعلان کے بعد رواں ہفتے کے آغاز میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوا‘ جس کے بعد پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے کہا کہ قیادت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی ہے اور ہفتے کے آخر میں دونوں اسمبلیوں کو توڑ دیا جائے گا۔ اُدھر پنجاب میں تحریک انصاف کے اتحادی اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی تو جیسے خان صاحب کے اسی اعلان کے منتظر تھے۔ اُنہوں نے خان صاحب کے اس فیصلے پر فوراً لبیک کہا اور کہا کہ خان صاحب کے حکم پر اسمبلیاں تحلیل کرنے میں وہ ذرا بھی تاخیر نہیں کریں گے۔ جمعرات کے روز چودھری پرویز الٰہی لاہور میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد اپنا یہ عزم دہرا بھی چکے ہیں۔
صوبائی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل سے ملک کی سیاسی صورت حال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے نہ تو دونوں صوبائی اسمبلیوں سے فوری طور پر استعفے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور نہ اس کی کوئی حتمی تاریخ دی گئی ہے بلکہ معاملہ مشاورت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بادی النظر میں یوں نظر آ رہا ہے کہ لانگ مارچ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے بعد پارٹی کے حامیوں کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے عمران خان نے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا علامتی اعلان کیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے فوراً پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی حمایت کرکے ووٹروں اور حامیوں میں سیاسی روح بیدار کرنے کی کوشش کی ہے جوکہ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کے لیے بھی طمانیت کا باعث ثابت ہوئی۔ میری نظر میں یہ اعلان کرکے محض وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تحریک انصاف چونکہ لانگ مارچ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے لہٰذا اپنے کارکنوں اور حامیوں کو مطمئن کرنے کے لیے ایسے اعلامیے جاری کیے جا رہے ہیں جبکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ تحریک انصاف وقتِ مقررہ پر انتخابات کرانے پر رضا مند ہو چکی ہے اور اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان محض اپنے ووٹروں کو متحرک رکھنے کی حکمت عملی ہے۔
عمران خان کی جانب سے استعفوں کے اعلان اور صوبائی اسمبلیوں کی ممکنہ تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن بھی اپنا یہ مؤقف واضح کر چکا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے پر قومی نہیں بلکہ متعلقہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہی ہوگا‘ جتنے بھی اراکین مستعفی ہوں گے‘ ان کی نشستوں پر 60روز میں ضمنی انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات پر کم از کم ساڑھے 22ارب روپے کا خرچ آئے گا اور اسمبلیوں کے تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن کو دونوں صوبوں میں 411حلقوں میں ضمنی انتخاب کرانا ہوں گے۔ ملکی معیشت پر پڑنے والے اس اضافی بوجھ کی ذمہ داری کس کے سر ڈالی جانی چاہیے؟ وسط مدتی الیکشن کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو اس بابت سپریم کورٹ سے بذریعہ ریفرنس رہنمائی حاصل کرنا ہوگی کیونکہ آئین اس اہم قانونی مسئلے پر خاموش ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جب دو صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل ہو سکتی ہے جبکہ باقی صوبوں میں حکومتیں برقرار رہیں گی۔ بھارت میں آئے روز کسی نہ کسی ریاست میں وسط مدتی انتخابات ہوتے رہتے ہیں مگر مرکزی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور مرکزی حکومت تسلسل سے اپنے آئینی فرائض ادا کرتی رہتی ہے‘ پاکستان میں یہ واحد مثال سامنے آ رہی ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے اسمبلیوں سے استعفوں اور اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے اعلانات کے بعد پی ڈی ایم دونوں صوبوں میں اپنی حکومت بنانے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب میں صوبائی حکومت تبدیل کرنے کے لیے ان کے پاس نمبرز پورے ہیں اور اگر اسمبلیاں نہیں توڑی گئیں تو وہ عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے۔ لیکن اگر وہ اسمبلیاں توڑیں گے تو ہم انتخابات لڑیں گے اور اگر نہیں توڑیں گے تو اپوزیشن کریں گے۔موجودہ صورت حال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں اپوزیشن لیڈر سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ ایک اور اہم فیصلہ اعلیٰ عدلیہ کو یہ بھی کرنا ہوگا کہ اگر اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو نگران سیٹ اَپ کیسے تشکیل دیا جائے گا۔ نگران سیٹ اَپ کی تشکیل بھی آئین کے آرٹیکل (A)224 کے مطابق لازمی ہے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں متعلقہ صوبوں کا نگران سیٹ اَپ ہی وہاں الیکشن منعقد کروائے گا اور یہ انتخابات وفاقی حکومت کے زیر اثر نہیں ہوں گے۔
عمران خان حملے کے بعد ابھی تک مکمل صحت یاب نہیں ہو سکے‘ اُن کی صحت اور زخموں کی صورتحال کے پیش نظر ڈاکٹرز نے اُنہیں سفر سے گریز کی ہدایت کر رکھی ہے۔ ان حالات میں اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں‘ تو عمران خان اپنی صحت کے پیش نظر بھرپور طریقے سے نہ تو جلسے جلوسوں میں شرکت کر سکیں گے اور نہ بھرپور انتخابی مہم چلا سکیں گے اور یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران خان کے بغیر عوام کا جم غفیر پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں میں نہیں آئے گا‘ اس کا تجربہ تحریک انصاف کی قیادت کو عمران خان کے زخمی ہونے کے بعد لانگ مارچ میں ہو چکا ہے۔ خان صاحب کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف کی قیادت عوام کی بڑی تعداد کو باہر نہیں نکال سکی تھی۔یہاں تک لکھ چکا تو خان صاحب کا ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر عام انتخابات کی تاریخ دی جائے ورنہ ہم اسمبلیاں توڑ دیں گے۔خان صاحب کا ڈائیلاگ کی صورت میں سیاسی مسائل کا حل نکالنے کا عندیہ خوش آئند ہے۔پی ڈی ایم بھی بارہا مذاکرات کی صورت میں سیاسی مسائل کا حل نکالنے کی دعوت دے چکی ہے۔ اب تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر بات کرنے کی آپشن پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تاکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو سکے اور ملکی معیشت بھی مشکلات سے نکل سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں