"KDC" (space) message & send to 7575

مقامی حکومتوں کے انتخابات اور وزارتِ داخلہ

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور پارٹی رہنماؤں اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان‘ فواد چودھری اور اسد عمر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھااور اپنی درخواست میں توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی کے خلاف ہائی کورٹس کے حکمِ امتناع خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔ اُدھرالیکشن کمیشن آف پاکستان بھی خان صاحب کے خلاف پانچ کیسوں میں محفوظ کیے گئے فیصلوں کا اعلان امکانی طور پر آئندہ ہفتے میں کسی بھی دن کر سکتا ہے۔ ان فیصلوں میں عمران خان کو پاکستان تحریک انصاف کی چیئرمین شپ سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اس سے قبل 21اکتوبر 2022ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کے حوالے سے حقائق چھپانے کے جرم میں بھی عمران خان کو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 210 کے تحت نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کو ملنے والی ممنوعہ فنڈنگ کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 204 کے تحت ضبط کرنے کے حوالے سے بھی خان صاحب کونوٹسز بھجوائے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان ضمنی الیکشن میں سات نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد الیکشن ایکٹ کی دفعہ 132 کے تحت انتخابی اخراجات بھی مقررہ وقت میں متعلقہ ریٹرننگ افسران کو جمع نہیں کراسکے جبکہ ان اخراجات کا جمع کرانا فارم سی کے مطابق خان صاحب کے لیے قانونی طور پر لازم ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کیس میں بھی خان صاحب کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا مجاز ہے۔
دیکھا جائے تو خان صاحب کے گرد قانونی گھیرا تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ خان صاحب کے خلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں توشہ خانہ کیس زیر سماعت ہے اور اس کیس میں 9 جنوری کو عمران خان کو ذاتی حیثیت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور پیش نہ ہونے کی صورت میں عدالت خان صاحب کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی مجاز ہے۔ ان مقدمات کے ساتھ ساتھ عمران خان کے خلاف شہباز شریف کی جانب سے ہتکِ عزت کا مقدمہ لاہور کی عدالت میں زیر سماعت ہے‘ جس میں سول کورٹ نے عمران خان کی اپیل کا حق مسترد کر دیا تھا۔ سول کورٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی اپیل کے حق کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ عمران خان 2017ء سے جاری اس کیس میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے عدالت میں اس حوالے سے کوئی جواب جمع کرایا تھا۔ ان تمام معروضات کو مدِنظر رکھیں تو بادی النظر میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کیس میں عمران خان کے خلاف ہرجانے کی ڈگری جاری ہو سکتی ہے۔ خان صاحب نے چونکہ اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اس لیے ہو سکتا ہے کہ ان کے خلاف ہرجانے پر جو فیصلہ آئے اس کی اپیل نہ ہو سکے ۔ ہرجانے کی سزا کی صورت میں خان صاحب آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کسی امیدوار کو کسی عدالت سے سزا یا جرمانہ ہو چکا ہو تو وہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 63(ون) (پی) کے تحت بھی وہ سزا ملنے کے بعد الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہیں گے۔
دوسری طرف اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کا معاملہ ہے جن کے بارے اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارتِ داخلہ کا 19دسمبر کا نوٹیفیکیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا 27دسمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مقامی حکومت کے الیکشن 31دسمبر کو کرانے کی ہدایت جاری کی تھی‘ جس پر وفاقی حکومت کا مؤقف تھا کہ وہ اس تاریخ پریہ انتخابات کرانے سے قاصر ہے ۔ یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن کرانے کے لیے چار سے چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ اصولی طور پر وفاقی حکومت الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے زیر تابع ہوتی ہے‘ اس لیے اس فیصلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہی انتظامی امور اور امن و امان کے مسائل کی روشنی میں عدالتِ عالیہ کو جواب دینا چاہیے تھا نہ کہ وزیر داخلہ کو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے خوش آئند فیصلہ دیا تھا کیونکہ وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 140(اے) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کے بغیر 19دسمبر کو ایک متنازع نوعیت کے نوٹیفیکیشن کے ذریعے غیرقانونی طور پر اسلام آباد کی یونین کونسلز میں اضافہ کر دیا جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 21 دسمبر کو مسترد کر دیا لیکن بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 21دسمبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 27 دسمبر کو متعلقہ فریقین سے مشاورت کرنے کا حکم دیا تھا جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 27 دسمبر کو فریقین کو سننے کے بعد 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کی صحیح تشریح نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن تنقید کی زد میں آ گیا۔ اگر کیس کی روداد کا جائزہ لیا جائے تو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئین اور قانون کے مطابق معاونت نہیں کی اور حکمران جماعت کے ہی نقطۂ نظر کو سامنے رکھا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندگان بھی اپنے دلائل سے عدالتِ عالیہ کو مطمئن نہ کر سکے۔ ماضی میں 2007ء میں بھی اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے الیکشن کمیشن کے کئی اہم فیصلوں کی تشریح کی تھی اور میں بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان عدالت میں پیش ہوتا رہا۔ میں نے تب جو مؤقف اختیار کیا اُس کی تائید اس وقت کے چیف جسٹس نے بھی کی اور اپنے فیصلہ میں اس کا خصوصی ذکر بھی کیا لیکن اب اٹارنی جنرل آفس اصولی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطمح نظر کو آئین و قانون کی روشنی میں پیش نہ کر سکا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کو بھی عدالتی فیصلہ آنے تک اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی انتظامی تیاری مکمل رکھنی چاہیے تھی تاکہ عدالتی فیصلے کی بجا آوری میں کوئی مشکل حائل نہ ہوتی۔
اگر ترقی یافتہ جمہوری ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں مقامی حکومتوں کے ادارے ہی جمہوریت کے اصل سرچشمہ ہوتے ہیں مگر وطنِ عزیز میں یہ ادارے ہمیشہ کمزور ترین ادارے رہے۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات بلاوجہ ملتوی کروا دیے جو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ عدلیہ از خود آئین کی واضح خلاف ورزی کرنے پر حکومت سے جواب طلبی کرے جس نے وزارتِ داخلہ سے ایسے وقت میں نوٹیفکیشن جاری کروایا کہ جب الیکشن میں چند روز ہی باقی تھے۔ جواب طلبی نہ کرنے کی صورت میں ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ناممکن بنی رہے گی۔ جب اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ملکِ عزیز کو فیڈریشن سے کنفیڈریشن میں تبدیل کر دیا گیا‘ اس وقت بھی مقامی حکومتوں کے تسلسل کا ایسا کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ایک مقررہ مدت میں الیکشن کرانے کے حوالے سے موجود ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی واضح ترتیب مرتب کرتے وقت بھی الیکشن کمیشن کی ان تمام سفارشات کو نظرانداز کر دیا گیا جو اس نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کے بعد 120دنوں میں دوبارہ انتخابات کروانے کے حوالے سے پیش کی تھیں اور مقامی حکومتوں کے قوانین‘ طریقۂ کار کو صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں