"KDC" (space) message & send to 7575

اسمبلی کی تحلیل اور عمران خان کی حکمت عملی

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ اور پارٹی رہنماؤں اسد عمر اور فواد چودھری کی حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تینوں رہنماؤں کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں الیکشن کمیشن نے عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کو مختلف جلسوں‘ پریس کانفرنسوں اور متعدد انٹرویوز کے دوران الیکشن کمیشن پر الزمات عائد کرنے پر توہینِ الیکشن کمیشن اور عمران خان کو توہینِ چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس جاری کیا تھا۔اُس نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات‘ تقاریر اور پریس کانفرنسوں کے دوران الزامات اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ اور الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست2022 ء کو اپنے جواب کے ساتھ الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کا کہا گیا تھالیکن پی ٹی آئی کے رہنما فوادچودھری نے الیکشن کمیشن کی جانب سے توہینِ کمیشن کا نوٹس لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردیا اور دورانِ سماعت ان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے اور یہ کہ توہینِ عدالت کا اختیار صرف اعلیٰ عدالتوں کو حاصل ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے سندھ اور لاہور ہائیکورٹ میں یہ نوٹس چیلنج کرنے کے بعد دونوں ہائی کورٹس نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی اور حتمی حکم جاری کرنے سے روک دیا۔یہ فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے عمران خان‘ فواد چودھری اور اسد عمر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور اپنی درخواست میں توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی کے خلاف ہائی کورٹس کے حکم امتناع کو خارج کرنے کی استدعا کی۔ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے توہینِ الیکشن کمیشن اور توہینِ الیکشن کمشنر کیس میں الیکشن کمیشن کی مختلف ہائی کورٹس میں جاری کیسز کو یکجا کرنے کے لیے درخواست کو نمٹاتے ہوئے اسے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چودھری کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے صرف حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ سماعت پر تینوں رہنماؤں کو آئندہ سماعت پر حتمی طور پر پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔اب تینوں رہنماؤں کی حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تینوں کے قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے 50‘ 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری طرف اپنے خلاف چلنے والے مختلف کیسوں سے قطع نظر ‘خان صاحب اب بھی پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کے خواہاں ہیں۔ خان صاحب نے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی پر 11 جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ لینے پر زور ڈالا اور دوسری صورت میں اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کو مستعفی ہونے کی ہدایت کر دی ہے لیکن بعد میں اعتماد کے ووٹ کو آج (11 جنوری) کے عدالتی فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت کہے گی تو ہی پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ دوسری طرف خان صاحب پنجاب میں اپنے اتحادی چودھری پرویز الٰہی پر در پردہ عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے باعث اُن کی مقبولیت متاثر ہو رہی ہے اور یہ کہ وہ پنجاب میں مخلوط حکومت کے خلاف ایسے الزامات برداشت نہیں کرسکتے۔ ممکن ہے کہ خان صاحب چودھری خاندان کے سیاسی پس منظر سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہوں۔ چودھری خاندان نے صدر ایوب خان سے لے کر آصف علی زرداری اور بعد ازاں عمران خان تک کے ادوار میں اپنی سیاسی حیثیت کو برقرار رکھا ہے۔ اب اگر عمران خان چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بارے میں ہدایت دے رہے ہیں تو شاید چودھری پرویز الٰہی کی خواہش ہو کہ وہ اگر اعتماد کے ووٹ میں ناکامی سے وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہو تے ہیں تو عمران خان کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونا چاہیے تا کہ ان کی پارٹی کو پنجاب سے نکال باہر کیا جائے۔دوسری جانب عمران خان اب بھی باجوہ صاحب کو تنقید کا نشانہ بنا ئے ہوئے ہیں ‘ اُن کا یہ طرزِ عمل اُن کی سیاسی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے اور اُنہیں مقتدر حلقوں کے لیے ناقابلِ قبول بنا رہا ہے۔
یہ بھی شنید ہے کہ خان صاحب کی مقتدرہ مخالف پالیسیوں کی وجہ سے اُن کے ہمنوا چپکے سے ان کے خلاف گروپ بندی میں مصروف ہیں تاکہ وہ اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنا سکیں۔خان صاحب حالیہ چند ماہ کے دوران بعض اہم ممالک کا ساتھ بھی کھو چکے ہیں۔ اُن کے اس طرزِ عمل کے سبب اُن کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اُن کے ہمنوا اُن کے خلاف چلنے والے کیسوں کے فیصلوں پر نظریں رکھے ہوئے ہیں۔ خان صاحب کے خلاف ایک مقدمہ ہتکِ عزت کے دعوے کا ہے جو شہباز شریف نے دائر کر رکھا ہے۔ اس کیس کا فیصلہ اگر اُن کے خلاف آیا اور اس کیس میں اُنہیں ہرجانے کی سزا ہو ئی تو ان کی سیاست کے لیے اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں کیونکہ کوئی سیاستدان کسی عدالتی فیصلے میں سزا ہونے کے بعد الیکشن لڑنے کا اہل نہیں رہتا۔ توشہ خانہ کیس نے بھی خان صاحب کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ آڈیو لیکس کی وجہ سے بھی خان صاحب کی مقبولیت میں فرق آیا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی جماعتوں پر نظر دوڑائی جائے تو مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر انائونس کرنے سے نواز شریف کو انتخابی معرکے میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا جبکہ اگلے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بھی نمایاں نظر نہیں آرہی۔ سندھ میں ان کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے لیکن پنجاب میں اُن کی انتخابی شکست یقینی ہے۔ جہاں تک چودھری شجاعت کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے تو وہ پرویز الٰہی کی وجہ سے فی الحال کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر پرویز الٰہی پی ٹی آئی میں خیمہ زن نہ ہوتے تو آئندہ انتخابات میں چند نشستیں حاصل کر کے پریشر گروپ بنانے کی پوزیشن میں تھے۔
اب کچھ احوال الیکشن کمیشن میں سیاستدانوں کی طرف سے جمع کرائے گئے اثاثوں کی تفصیل کا۔ 117 اراکینِ اسمبلی کی ایف بی آر اور الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی تفصیلات میں تضاد سامنے آیا ہے‘ جس پر الیکشن کمیشن ان اراکین کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہے اور ان کو نااہل بھی قرار دے سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 161 اراکین ابھی تک ٹیکس فائلرز بھی نہیں ہیں جبکہ ان کی مجموعی آمدن 37 ارب روپے ہے۔ 24 خواتین ممبرتو ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہی نہیں اور ان خواتین کے مجموعی اثاثے 10 کروڑ سے زائد ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کے حکام ان ثاثوں کے حوالے سے اپنی حتمی رپورٹ تیار کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے محدود اختیارات کی وجہ سے ان اراکینِ اسمبلی کے تضاد سے بھرے ہوئے گوشواروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی از خود کرنے کا مجاز نہیں ہے جبکہ بھارت کا الیکشن کمیشن اس معاملے میں مکمل بااختیار ہے۔پاکستان کے اراکینِ پارلیمنٹ اپنے مفاد کے برعکس کسی قسم کی قانون سازی ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے لیکن ضروری ہے کہ اب آئندہ انتخابات سے قبل قومی احتساب بیورو‘ ایف بی آر‘ ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چارٹر کو از سر نو منظم کیا جائے تاکہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں