"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات اور ملکی معاشی صورتحال

قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفے منظور ہونے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان مشکلات کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان نے قومی اسمبلی سے اپنے پارٹی اراکین کے اجتماعی استعفوں کے فیصلے پر صدرِ مملکت کی رائے کو بھی فوقیت نہیں دی۔ حکومت سے باہر ہونے کے بعد اب خان صاحب کے خلاف زیرِ سماعت کیسوں کے ٹرائل میں بھی تیزی آ سکتی ہے۔ کچھ کیسوں کے تو حتمی فیصلے بھی سامنے آنے والے ہیں۔ ان کیسوں میں خان صاحب کے خلاف نااہلیت کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ان کی پارٹی کی رجسٹریشن بھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215کے تحت واپس لی جا سکتی ہے اور پارٹی کا نشان بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے منسوخ کرنے کی پوزیشن میں ہے‘ مگر عمران خان صاحب اب بھی زمینی حقائق سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ عمران خان کی اس حکمت عملی سے شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی ہے۔ عمران خان بظاہر اب بند گلی میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی قوت سے محروم ہونے کے بعد ان کی گرفتاری کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
عمران خان کے خلاف چلنے والے کیسوں میں اُن کی نااہلیت اور پارٹی چیئرمین شپ سے سبکدوشی کی صورت میں اُن کی جماعت میں قیادت کا جھگڑا بھی پیدا ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں جہانگیر ترین ایک بار پھر فعال ہو سکتے ہیں کیونکہ پنجاب میں جہانگیر ترین اور خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک ایسی نمایاں شخصیات ہیں جو عمران خان کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کی اہلیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی تحقیقاتی ادارے نے جہانگیر ترین اور اُن کے بیٹے علی ترین کے خلاف دائر منی لانڈرنگ کیس میں اُنہیں کلین چٹ دیتے ہوئے اُن کا مقدمہ داخلِ دفتر کر دیا ہے۔ فواد چودھری بھی ضمانت کے بعد اپنے مضبوط گروپ کے ساتھ تحریک انصاف کی قیادت کیلئے آگے آ سکتے ہیں۔ فواد چودھری کو 25 جنوری کواسلام آباد پولیس نے لاہور سے گرفتار کیا تھا۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ فواد چودھری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی کرنے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی‘ اب اُن کے خلاف دائر مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔یہ مقدمہ سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا‘مقدمے کے مطابق فواد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائضِ منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا اوردھمکایا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ برس ستمبر سے فواد چودھری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔اس کیس کا حتمی فیصلہ جو بھی ہو لیکن تحریک انصاف کی طرف سے اس گرفتاری کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے نتیجے میں چھائی بے یقینی کی فضا ملکی معیشت پر جو گہرے اور برے اثرات مرتب کر رہی ہے‘ وہ کئی خدشات کو جنم دے رہے ہیں اور حکومت کے پاس ان معاشی مسائل کا حل صرف آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی ہے کیونکہ اب امریکہ‘ چین اور سعودی عرب جیسے ممالک بھی ہمارے لیے مزید قرض کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کر چکے ہیں۔ اگلے روزآئی ایم ایف نے نویں سہ ماہی جائزہ اجلاس کیلئے اپنا وفد پاکستان بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد 31جنوری سے 9فروری تک پاکستان کا دورہ کرے گا۔ آئی ایم ایف کا مذکورہ وفد پاکستان میں اندرونی اور بیرونی استحکام کی بحالی کے لیے پالیسیوں پر توجہ مرکوز کرے گا‘ جس میں غریبوں اور سیلاب متاثرین کی مدد کرتے ہوئے پائیدار اور اعلیٰ معیار کے اقدامات کے ذریعے مالی پوزیشن مستحکم کرنا بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے ہمیں عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے قرض کی نئی قسط تو مل جائے گی لیکن مزید قرض کی فراہمی کیلئے آئی ایم ایف جو سخت شرائط عائد کر رہا ہے وہ عوام دشمن ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے منی بجٹ تیار کر چکی ہے‘ اس منی بجٹ کی منظوری سے ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آئے گاکیونکہ مذکورہ بجٹ میں نہ صرف ستر ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے بلکہ نئے ٹیکس بھی لگائے جا رہے ہیں۔اس کے علاوہ پٹرول‘ ڈیزل اور گیس بھی مہنگی کی جا رہی ہے جس کے بعد ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو خود بخود پر لگ جائیں گے۔ پچھلے دو روز میں ڈالر کی قدر میں ہونے والے ہوشربا اضافے سے بھی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی نئی لہر آئے گی بلکہ شرحِ سود میں اضافے کے نتیجے میں مہنگے قرضے سے صنعتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوں گی۔ رواں ہفتے کے اوائل میں سٹیٹ بینک نے شرحِ سود میں 100 بیس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا تھا جس کے بعد شرحِ سود 17 فیصد کے ساتھ ملکی تاریخ کے 25 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی تاکہ مہنگائی پر قابو پایا جا سکے لیکن روپے کی قدر میں کمی سٹیٹ بینک کی کوششوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی اشیا اور صنعتی خام مال کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور مہنگائی سے متاثر عوام کی زندگی مزید بدحالی کی طرف چلی جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف مگر یہ امید ظاہر کر رہے ہیں کہ آئندہ چند روز میں عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا جس کے بعد پاکستان ان مشکلات سے باہر نکل آئے گا‘ جبکہ اُنہی کی جماعت کے رہنما مفتاح اسماعیل ملکی معیشت کی اس بدحالی کا ذمہ دار اپنی ہی جماعت کے وفاقی وزیر خزانہ کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف مخالف سوچ کی وجہ سے ملک کو شدید معاشی نقصان پہنچا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اُنہیں وزارتِ خزانہ کے منصب سے اسحاق ڈار صاحب کی ایما پر ہی ہٹایا گیا تھا۔
اُدھر الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 33نشستوں پر 16مارچ کو انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے 33حلقوں پر 16مارچ 2023ء کو ضمنی انتخابات ہوں گے جن کے لیے 6سے 8فروری تک کاغذاتِ نامزدگی وصول کیے جائیں گے۔ یہ نشستیں تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد خالی ہوئی تھیں۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے کے لیے بھی دونوں صوبوں کے گورنروں سے مشاورت کرتے ہوئے ان کو الیکشن کی تاریخ کے بارے میں خطوط جاری کر دیے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 224کی روشنی میں متعلقہ گورنر ہی صوبے میں امن و امان‘ سیاسی کشیدگی اور دیگر معروضی حالات کے پیش نظر الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ کرے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دونوں صوبوں میں انتخابات وقت مقررہ پر نہ ہو سکیں‘ جس کے لیے آئین کے آرٹیکل 234 میں گنجائش بھی موجود ہے۔ ملک کے معاشی حالات کے پیش نظر ان انتخابات کو قومی انتخابات تک ملتوی بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ملک میں بیک وقت انتخابات کرانا ہی ریاست کے مفاد میں ہے۔ انتخابات کے انعقاد کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں صوبائی اسمبلیوں کے نگران وزرائے اعلیٰ اور گورنروں کی رضامندی سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھجوائے جا سکتے ہیں جس کی دلیل امن و امان کی صورتحال اور ملک کے معاشی حالات کو قرار دیا جا سکتا ہے۔گوکہ الیکشن کمیشن دونوں صوبوں میں اور قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر انتخابات کروا کے جلد از جلد اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنا چاہتا ہے لیکن وفاقی حکومت اور دونوں صوبائی حکومتیں اپنی متفقہ رائے سے الیکشن کمیشن کو انتخابات مؤخر کرنے پر قائل کر سکتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں