"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کی آئینی حیثیت

تحریک انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی کے مستعفی ہونے کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں واپسی کے معاملے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی متضاد آرا سامنے آ رہی ہیں۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا مؤقف ہے کہ سپیکر منحرف اراکین اور استعفے نہ دینے والے اراکین کے علاوہ تحریک انصاف کے باقی سب استعفے منظور کر چکے‘اب جن اراکین کی بنیاد پر مخصوص نشستیں ملنی ہیں جب وہ ہی ایوان میں موجود نہیں تو مخصوص نشستوں پر واپسی کیسے ہوسکتی ہے؛ تاہم الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اپنی مجموعی تعداد کے تناظر میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی24نشستیں واپس مل سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنے طور پر اس حوالے سے اگر کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اسے آئین کے آرٹیکل 224 کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ آئین کی مذکورہ شق کے مطابق الیکشن کمیشن تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں واپسی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ میری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے چیئرمین کو خط لکھ کر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی فہرست منگوانے کا ارادہ کر چکا ہے۔ اب اگر تحریک انصاف کو 24 یا اس سے زائد مخصوص نشستیں واپس مل جاتی ہیں تو قومی اسمبلی میں راجہ ریاض کی حیثیت بطور اپوزیشن لیڈر خطرے میں پڑ سکتی ہے۔دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی کے دائرہ کار میں ہے‘ اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اس حوالے سے اپنی رائے دے چکی ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت اگر جمہوری طرزِ عمل اپناتی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے سے گریز کرتی تو آج حالات کافی مختلف ہوتے لیکن عمران خان کے گرد موجود گروہ نے اُنہیں بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ چودھری پرویز الٰہی بھی گزشتہ دنوں اس گروہ کے حوالے سے بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔اسی ٹولے کے کہنے پہ خان صاحب دوسری سیاسی جماعتوں اور اداروں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔خان صاحب کے خلاف چلنے والے بیشتر کیسوں کی اصل وجہ چار کا یہی ٹولہ ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے 7 فروری کی تاریخ مقرر کردی ہے۔ اُدھر اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے عمران خان کی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے درج مقدمے میں ضمانت میں 15 فروری تک توسیع کردی ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے 11 اکتوبر 2022ء کو عمران خان سمیت 11 افراد کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ درج کیا تھا۔ مقدمے کی ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور یہ کہ ملزمان نجی بینک اکاؤنٹ کے بینی فشری ہیں۔ فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت درج اس مقدمے میں گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر عمران خان نے 12 اکتوبر کو حفاظتی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب فواد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر پر الزامات لگائے اور دفعہ 124(اے) کی زد میں آ گئے۔ یہ دفعہ 1973ء تک ڈیفنس رولز آف پاکستان کی اہم دفعہ تھی جو بعد میں 1973ء کے دستور میں شامل کر لی گئی۔ فواد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر اور ممبرانِ الیکشن کمیشن کے خلاف جو بیان بازی کی‘ اس کی اُن جیسے سیاست دان سے توقع نہ تھی۔ اس سے قبل عمران خان نے اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج کے بارے میں جو ریمارکس دیے تھے‘ اس کیس میں ابھی تک عمران خان عدالتی کارروائی کی زد میں ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ اب فواد چودھری کو درپیش ہے اور ان کے وکلا اس کیس کو سیاسی نوعیت کا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ فواد چودھری اپنی وکلا ٹیم کا ازسر نو جائزہ لیں اور فوجداری مقدمے کے تجربہ کار وکلا کی خدمات حاصل کریں۔
اُدھر تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے مطابق قومی اسمبلی کی تمام ضمنی نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں عمران خان ہی واحد امیدوار ہوں گے اور جو اراکینِ قومی اسمبلی مستعفی ہو چکے ہیں‘ وہ ان حلقوں میں عمران خان کے کورنگ امیدوار کے طور پر اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائیں گے۔ عمران خان کے ان تمام حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینے پر آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔ انہوں نے اکتوبر 2022ء میں بھی آٹھ نشستوں پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے جن میں وہ سات حلقوں میں کامیاب ہو گئے تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 جنوری کو ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا؛ آئین کے آرٹیکل 223کے تحت‘ اگر انہوں نے ایک ماہ کے اندر حلف نہیں اٹھایا‘ تو وہ آئینی طور پر چھ حلقوں کی کامیاب نشستوں سے محروم ہو جائیں گے کیونکہ آئین میں درج ہے کہ امیدوار کو ایک ماہ کے اندر اپنی ایک نشست کے علاوہ باقی نشستوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اب بھی عمران خان اگر تمام ضمنی حلقوں سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کو اِن تمام نشستوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق وہ اب صوابی کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے ممبر نامزد ہیں گوکہ انہوں نے ابھی تک اس نشست کا حلف بھی نہیں اٹھایا۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت وہاں 90روز میں انتخابات کرانا لازمی ہے۔ اگر آئین کے آرٹیکل 105کا جائزہ لیا جائے تو الیکشن کا شیڈول جاری کرنا گورنر کا صوابدیدی اختیار ہے۔ گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ اسمبلی کی تحلیل میں حصہ دار نہیں تھے لہٰذا وہ اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کے روادار بھی نہیں اور اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی کرے یا پھر صدرِ مملکت الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کے بعد تاریخ کا تعین کریں۔ دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد میں کسی قسم کی تاخیر آئین پر حملے کے مترادف ہو گی لیکن دوسری طرف آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت ملک میں ناموافق حالات کے پیش نظر الیکشن ملتوی یا مؤخر کیے جا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء جو اَب الیکشن ایکٹ کا حصہ بن چکا ہے‘ کی دفعہ 108کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیارات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہیں‘ ماضی میں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر الیکشن کمیشن کئی ضمنی انتخابات ملتوی کر چکا ہے اور ایسا کرنے سے آئین کا آرٹیکل 224متاثر نہیں ہوتا۔
ملک کی سیاسی صورتحال اور انتخابات کے انعقاد سے ہٹ کر اگر ملکی معاشی صورتحال پر بات کی جائے تو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرنے سے پاکستان کے عوام کی معاشی حالت مزید ابتر ہونے کا اندیشہ ہے۔ قوم کو اس وقت مہنگائی کے جس طوفان کا سامنا ہے‘ گوکہ اس کی بنیاد تحریک انصاف نے رکھ دی تھی لیکن اب یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی غلطیوں کا ازالہ کرکے ملک کو معاشی استحکام کی راہ پر ڈالے بلکہ عوام کی معاشی سکت بہتر بنانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں