"KDC" (space) message & send to 7575

ممنوعہ فنڈنگ کیس اور پی ٹی آئی

اسلام آباد ہائی کورٹ گزشتہ ہفتے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دائر کردہ درخواست مسترد قرار دے چکی ہے۔ یہ درخواست تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عمر ایوب کی طرف سے الیکشن کمیشن کو فریق بناتے ہوئے دائر کی گئی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کا 2اگست 2022ء کو سنایا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ واضح رہے کہ مذکورہ کیس کے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے‘ جانتے بوجھتے غیرملکی باشندوں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی اور عمران خان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204‘ 210 اور پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2000ء کی دفعات 5‘ 6 اور 14کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔ درخواست میں پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی کارروائی غیرقانونی اور الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صرف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست مسترد کردی ہے بلکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو جاری شدہ ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کا شوکاز نوٹس بھی درست قرار دے دیا ہے۔ گوکہ تحریک انصاف کی قیادت اس شو کاز نوٹس کا جواب دے کر الیکشن کمیشن کے سامنے اپنا مؤقف پیش کر سکتی تھی لیکن اس کے برعکس تحریک انصاف کی طرف سے اس آئینی ادارے کی حیثیت کو ہی چیلنج کردیا گیا‘ جبکہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے۔ تحریک انصاف نے اگر اب بھی الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس کا جواب نہ دیا تو اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 204 کے تحت ممنوعہ فنڈنگ کو بحقِ سرکار ضبط کرنے کے احکامات جاری کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت پارٹی کا انتخابی نشان بھی واپس لیا جا سکتا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کی صورت میں وفاقی حکومت بھی آئین کے آرٹیکل (3)17 کے تحت تحریک انصاف کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس دائر کرکے پارٹی کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کر سکتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف عمران خان کی قانونی ٹیم اس کیس میں اپنے دلائل پیش کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھانے میں مصروف ہے۔ اس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد عمران خان کو یقینا شدید دھچکا لگا ہو گا۔ الیکشن کمیشن اگر تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لے لیتا ہے تو آئندہ انتخابات میں اس کے امیدوار آزاد امیدوار کی حیثیت سے ہی حصہ لے سکیں گے۔ حتیٰ کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب جہاں تک پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا تعلق ہے تو گورنر خیبر پختونخوا ملک میں امن و امان کی صورتحال اور دہشت گردی کے حملوں کے پیشِ نظر الیکشن کی تاریخ طے کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی تجویز دے چکے ہیں جبکہ الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے گورنر پنجاب کا مؤقف یہ ہے کہ چونکہ اُنہوں نے پرویز الٰہی کی جانب سے بھیجی جانے والی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس پردستخط نہیں کیے تھے اور پنجاب اسمبلی آئینی طور پر خودبخود تحلیل ہو گئی تھی‘ لہٰذا آئین کے آرٹیکل 105کی شق تین کے تحت وہ الیکشن کی کوئی حتمی تاریخ دینے کے مجاز نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اورخیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں کے گورنرز کو متعلقہ صوبوں میں انتخابات کے حوالہ سے حتمی تاریخ کے تعین کے لیے جو خطوط لکھے‘ اس کا جواب دیتے ہوئے دونوں گورنروں نے علیحدہ علیحدہ خطوط میں کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی اور معاشی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے الیکشن کمیشن خود ہی تاریخوں کا تعین کرے۔ خیبر پختونخوا میں تو گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی اسمبلی کی تحلیل اور نگران حکومت کے قیام کے بعد 90دن میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کرانے کی درخواست پر نگران صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا ہے۔ عدالت میں پی ٹی آئی کے وکیل و درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90دن میں انتخابات کرانا لازمی ہے جبکہ گورنر خیبرپختونخوا نے ابھی تک الیکشن کی تاریخ نہیں دی۔ وکیل نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ جب صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی بات ہوتی ہے تو گورنر خیبر پختونخوا کہتے ہیں کہ امن و امان کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن کرا رہے ہیں‘ کیا اب حالات ٹھیک ہیں؟ بعد ازاں عدالت نے صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی۔ گورنر پنجاب یہ مؤقف بھی اختیار کر چکے ہیں کہ چونکہ اسمبلی کی تحلیل کا حصہ نہ بننے پر آئین کے آرٹیکل 105کی شق تین کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا‘ اس لیے اب آئین کے آرٹیکل 218‘ 224 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ (1)47 کے تحت صدرِ مملکت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت سے عام انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کریں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن ہمہ وقت تیار ہے اور وہ پنجاب میں نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے 9تا 13اپریل اور خیبر پختونخوا میں 14تا 17اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کی چوائس دونوں صوبوں کے گورنروں کو دے چکا ہے۔ اب یہ نگران حکومتوں اور دونوں صوبوں کے گورنروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ صوبوں میں نوے دن کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بناتے ہیں یا یہ معاملہ یونہی طوالت اختیار کرتا جائے گا۔
اُدھرگزشتہ ہفتے مسلم لیگ ہاؤس لاہور میں (ق) لیگ کے مشاورتی اجلاس کے بعد چودھری شجاعت حسین کو پارٹی کی صدارت سے ہٹاکر ان کی جگہ ان کے بھائی چوہدری وجاہت حسین کو پارٹی کا صدر مقرر کرنے کا جو عمل کیا گیا‘ وہ اُس وقت فلاپ ثابت ہوا جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205کے تحت چودھری شجاعت حسین کو ہی مسلم لیگ (ق) کا صدر برقرار رکھتے ہوئے سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا فیصلہ مسترد کردیا کیونکہ اس فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور یہ کہ چودھری شجاعت کی پارٹی صدارت سے برطرفی پارٹی آئین کے بھی متصادم تھی۔ مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی نے پارٹی سربراہ چودھری شجاعت حسین کو صدارت کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ چودھری شجاعت حسین نے بطور پارٹی سربراہ‘ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے اراکینِ اسمبلی کو وزیراعلیٰ کے انتخاب میں اپنے کزن چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دینے کیلئے خط لکھا تھا۔ اب چودھری شجاعت حسین‘چودھری پرویز الٰہی اور اُن کے دیگر ساتھیوں کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کروا چکے ہیں۔ جس کے بعد یہ جماعت اب خاندانی اختلافات کی نذر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ میں چوہدری برادران کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو اب بھی تحریک انصاف سے اپنی راہیں جدا کر لینی چاہئیں۔ گوکہ تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن وہاں چودھری پرویز الٰہی کو وہ مقام حاصل ہونا ممکن نظر نہیں آتا جس کے وہ متمنی ہیں۔ اُن کا سیاسی مستقبل مسلم لیگ (ق) کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی محفوظ رہے گا۔ اُنہیں جس قدر جلد ممکن ہو‘ یہ بات سمجھ لینی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں