"KDC" (space) message & send to 7575

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور الیکشن کمیشن

گزشتہ ہفتے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق گورنر پنجاب کے خط کا جواب دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد الیکشن کی تاریخ کا اعلان ضروری ہے جو آپ نے ابھی تک نہیں کیا گیا‘ ایسا نہ کرکے آپ آئین سے انحراف کررہے ہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے خط میں یہ مؤقف بھی اپنایا کہ گورنر نے آئین کے آرٹیکل 105کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کی ہے جو حقائق کے برعکس ہے‘ آئین کی شق 105سے واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنرکی ذمہ داری ہے اور یہ کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90دن کے اندر انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔ آئین کی کسی شق کی تشریح کرتے ہوئے ماضی کی مثالیں اور فیصلے ہی مدنظر رکھے جاتے ہیں۔ اصولی طور پر سپیکر پنجاب اسمبلی اور گورنر کو آئین کے آرٹیکل 105کی تشریح کرتے ہوئے معاشی‘ سیاسی اور امن و امان کے مسائل کو بھی مدِنظر رکھنا چاہئیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے سے متعلق کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ فیصلہ گزشتہ رات سنایا اور تحریک انصاف کی پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 90 دنوں میں الیکشن کرانے کا حکم دیتے ہوئے انتخابات کی تاریخ دینے کا کہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ مشاورتی اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کی خالی ہونے والی 33 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر خود حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سابق اراکینِ اسمبلی ہی الیکشن لڑیں گے۔ عمران خان نے اس مقصد کیلئے سابق اراکین کو اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے اور انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی ہدایت بھی کردی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کو اپنے خلاف چلنے والے کیسوں کے فیصلے اپنے خلاف ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر ا ن کیسزمیں خان صاحب کو نااہلی کا سامنا کر پڑتا ہے تو اُن کی حکمت عملیاں ناکامی سے دوچار ہو ں گی۔ خان صاحب کی نااہلی کی صورت میں جماعت کی قیادت کا مسئلہ بھی سر اُٹھا سکتا ہے۔ خان صاحب کے بعد پارٹی قیادت کے حوالے سے جماعت کے رہنمائوں کی رائے منقسم ہے اس لیے خان صاحب کو اس وقت کسی قسم کی مہم جوئی کرنے کے بجائے اپنی جماعت کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ خان صاحب کی مقتدرہ مخالف پالیسی پر تو اُن کے اپنے ساتھی بھی اُن کی مخالفت کرتے دیکھے گئے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومتیں تحلیل کرنے پر بھی تحریک انصاف کے اراکین کی رائے منقسم تھی۔ دونوں صوبوں میں اپنی حکومتوں کی تحلیل سے تحریک انصاف کی طاقت میں ہونے والی کمی بھی واضح ہے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے اقدام سے پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ خان صاحب اگلے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے کی جو اُمیدیں رکھتے ہیں‘ قومی اسمبلی کی 86نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے اُنہیں اپنی پارٹی مقبولیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین چند ماہ کی نشستوں کے لیے اپنی انتخابی مہمات پر زیادہ خرچہ نہ کریں۔ وہ پارٹی اراکین کے مستعفی ہونے کے بعد اسمبلی میں اکثریت کھونے پر بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے ایک مربوط انتخابی مہم چلانے کیلئے بھی اُن کے پاس کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں۔ اگر پی ٹی آئی اُمیدوار ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر پھر سے قومی اسمبلی کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو پھر مستعفی ہونے کی منطق کیا تھی؟ اس صورتحال کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خان صاحب قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے اور اپنے اپریل 2022ء کے مؤقف پر ڈٹے رہتے۔ تحریک انصاف اس وقت بظاہر دوراہے پر کھڑی ہے۔ دیکھا جائے تو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 80سے زائد نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے‘ ان نشستوں کی مدت ساڑھے تین ماہ کے لیے ہو گی کیونکہ 12اگست کو موجودہ اسمبلی برخاست کر دی جائے گی۔ ان قلیل مدتی انتخابات پر ملکی خزانے کے اربوں روپے خرچ ہو جائیں گے جبکہ امیدواروں کی طرف سے انتخابی مہم پر ہونے والا خرچہ الگ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ملک میں قومی اسمبلی کی ضمنی نشستوں اور دونوں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی حتمی تاریخ کا تعین آئی ایم ایف سے معاہدہ مکمل ہونے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
اُدھر خان صاحب اپنے حامیوں کو متحرک رکھنے کیلئے جیل بھرو تحریک کا اعلان بھی کر چکے ہیں لیکن اُنہوں نے ابھی تک اس اعلان کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی حتمی تاریخ کے اعلان سے مشروط کر رکھا ہے۔ خان صاحب کی اس جیل بھرو تحریک میں بھی اُن کے کارکنان ہی جیلیں بھرتے نظر آ ئیں گے کیونکہ جماعت کے چند اراکین کا کچھ روز ہی جیل میں گزارنے کے بعد جو حال ہو چکا ہے اس کے بعد وہ پھر سے جیل کا منہ دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو خان صاحب کی جیل بھرو تحریک بھی ناکام ہو جائے گی۔
سیاسی بحران سے قطع نظر‘ ملکِ عزیز کو اس وقت شدید اقتصادی بحران کا بھی سامنا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر نو سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ تین ارب ڈالر سے بھی کم زرِ مبادلہ کے ذخائر ایک چند ہفتوں کی درآمدات کے لیے بھی کافی نہیں جبکہ دس روزہ مذاکرات کے بعد ابھی تک آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کے لیے معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی دو بڑی وجوہات میں ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں کمی ہے۔ موجودہ حکومت ابھی تک اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی یا تو ملک میں ڈالر بھیج ہی نہیںرہے اور جو بھیج رہے ہیں وہ بھی بینکنگ چینل کے بجائے حوالہ ہنڈی کو فوقیت دے رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بھی جیتنا ہوگا تاکہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ کیا جا سکے۔ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ان معاشی مسائل کے علاوہ ہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر نے امن و امان کی صورتحال سے متعلق مزید خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے اس ساری صورتحال کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ آل پارٹیز کانفرنس میں اس حوالے سے معاملات طے پا سکتے ہیں لیکن ایک تو یہ کانفرنس اب تک دو بار مؤخر کی جا چکی ہے اور دوسرا اس میں ملک کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کی شمولیت بھی یقینی نہیں۔
اب آخر میں کچھ ذکر سابق صدر پرویز مشرف کا۔ صدر پرویز مشرف کے انتقال کی خبر سن کر میرا دل انتہائی افسردہ ہو گیا۔ وہ ایک بڑی سوچ کے حامل انسان تھے۔ ایک محبِ وطن صدرہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک باصلاحیت جرنیل بھی تھے جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے مفاد کو اولین ترجیح بنائے رکھا اور 'سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا۔ اُن کی تدفین کراچی کے آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ کر دی گئی۔ اُن کی وفات کے بعد سے ان کے بارے میں بہت کچھ دونوں پہلوؤں سے لکھا جا رہا ہے۔ میں آئندہ کچھ روز میں ان کے بارے میں ایک خصوصی مضمون لکھوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں