"KDC" (space) message & send to 7575

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

لاہور ہائیکورٹ نے 10فروری کو الیکشن کمیشن کو 90روز کی آئینی مدت میں پنجاب میں نئے انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم جاری کیاتھا۔ تحریری فیصلے میں لکھا گیا کہ الیکشن کمیشن گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد فوری تاریخ کا اعلان کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر ہی الیکشن ہوں۔اس سلسلے میں گزشتہ روزانتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے گورنر پنجاب اور الیکشن کمیشن حکام کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا جبکہ گورنر پنجاب نے صوبے میں الیکشن کرانے کے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی تشریح اور وضاحت کے لیے درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آئینی ماہرین کے مطابق آئین کے آرٹیکل 219(جو کہ الیکشن کمیشن کی ڈیوٹیز سے متعلق ہے)کی رُو سے کوئی ادارہ الیکشن کمیشن کے الیکشن سے متعلق معاملات میں دخل دینے کا آئینی طور پر مجاز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اہم فیصلے عدالتی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ آئینی طور پر الیکشن کمیشن صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے تابع ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف گورنر پنجاب انٹرا کورٹ اپیل میں جانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 105کے تحت ہر صوبے کے گورنر کا آئینی اختیار ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ کا تعین کرے۔ موجودہ حالات میں جبکہ ملک سخت معاشی مسائل سے دوچار ہے‘ مشکل معاشی حالات کی وجہ ہی سے وزارتِ خزانہ نے الیکشن کمیشن کو صوبوں میں الیکشن کرانے کے لیے مطلوبہ فنڈز جاری کرنے سے بھی معذرت کر لی ہے‘ دونوں صوبوں کے آئی جی صاحبان بھی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر الیکشن کے لیے عملہ دینے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کو مشترکہ مفادات کونسل کے اُس اہم فیصلے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جس کے تحت الیکشن کمیشن نئی مردم شماری کے نتائج کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے‘ لہٰذا نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے تک الیکشن بھی نہیں ہو سکتے۔ اگر پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو اسے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے سے انحراف تصور کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کرانا آئین کے آرٹیکل 51کے بھی منافی ہے۔ نئی مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد اگر پنجاب کی آبادی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تو آبادی میں اضافے کے تناسب سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں لامحالہ اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ 2017ء میں مردم شماری کے عجلت میں تیار کردہ نتائج میں پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں 149سے کم کرکے 141کر دی گئی تھیں اور باقی آٹھ نشستیں بلوچستان‘ فاٹا اور اسلام آباد میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ 2018ء کے عام انتخابات مردم شماری کے عبوری نتائج پیش نظر رکھ کر کرائے گئے تھے‘ اُس وقت بھی صوبہ سندھ کی اہم سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے شدید اعتراضات اٹھائے تھے‘ جس کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر الیکشن 2023ء میں مکمل عملدرآمد کرانے کا تحریری معاہدہ ہو گیا تھا۔ نئی مردم شماری کے حتمی نتائج 30اپریل تک متوقع ہیں‘ حتمی گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا کام چار ماہ کے اندر مکمل کرانا آئینی طور پر لازمی ہے۔ الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانے کے بعد ہی الیکشن شیڈول جاری کر سکے گا۔ اگر سیاسی دباؤ کے تحت پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرائے گئے تو وہ غیرآئینی تصور کیے جائیں گے اور مخالف فریق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی پٹیشن داخل کرا سکتا ہے اور اسی طرح پرانی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانے کا عمل غیرآئینی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 90روز میں الیکشن کے انعقاد کا حکم دیتے ہوئے ان سب عوامل کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے تھا۔
نئی مردم شماری کے حتمی نتائج کے بعد سندھ کے بڑے اضلاع بالخصوص کراچی‘ حیدرآباد اور میرپور خاص میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا ہوگا کیونکہ ان اضلاع میں آبادی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ایم کیو ایم کے مفاد میں بھی ہے۔ میرے نزدیک اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل میں جاتا ہے تو اُسے انہی بنیادوں پر اپیل میں جانا ہوگا یا پھر گورنر پنجاب سنگل بنچ کے اس فیصلہ کو اعلیٰ عدالت میں بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔دوسری جانب لگتا ہے کہ صدرِ مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کے نام اپنے خط میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرنے کی تاکید کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 219کو مدنظر نہیں رکھا۔ الیکشن شیڈول جاری کرنے کا آئینی استحقاق الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218کے تحت ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ملک اس وقت ایسی بے شمار مشکلات کا شکار ہے جن کے حل کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی‘ ساتھ ہی سیاستدانوں کو اپنے رویوں اور سوچ کے زاویوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ جب تک اُن کا سوچنے کا انداز اور رویے جمہوری اقدار سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہوتے‘ ملک ایسی مشکلات میں ہی گھرا رہے گا۔ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 224اور 105کے مطابق آگے بڑھتے ہوئے دونوں صوبوں میں انتخابات کے مضمرات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگر معزز عدالت عالیہ کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب میں انتخابات کرا دیے جاتے ہیں تو کامیاب ہونے والی جماعت کی نومبر 2023ء تک یہاں حکومت تشکیل پا جائے گی۔ پھر جب قومی اسمبلی کے انتخابات کا مرحلہ آئے گا تو دونوں صوبوں میں غیر جانبدار نگران حکومتوں کے بجائے جانبدار نئی حکومتوں کی وجہ سے یہاں قومی اسمبلی کے انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ہونے ہیں‘ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات نہ ہوں تو بھی نیا الیکشن زیادہ دور نہیں اس لیے کئی حلقوں کی طرف سے پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کرانے کی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں جن پر اتفاق بہرحال تمام سٹیک ہولڈرز کی رضا مندی کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور اس رضا مندی کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ملک کی سب سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوں گی‘ اس پلیٹ فارم پر بھی یہ معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ملک عزیز کو اس وقت کئی اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کو درپیش یہ چیلنجز بھی مذاکرات کا راستہ کھولنے کیلئے کافی ہیں لیکن سیاستدان کسی بھی حوالے سے سنجیدہ رویے اختیار کرتے نظر نہیں آتے اور ہر سیاسی جماعت یہاں ذاتی مفادات کے حصول کی لڑائی میں مصروفِ عمل ہے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جبکہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے سیاسی جماعتیں یکجا ہوتی رہی ہیں حتیٰ کہ صدر ایوب خان بھی 1969ء میں ملک کو درپیش مسائل کے باعمل حل کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کے لیے تیار ہو گئے تھے۔میری رائے میں‘ ان سب عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ ملک میں چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد کیے جائیں۔ آئین کا آرٹیکل 218بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ہمارے یہاں بھارت کے انتخابی نظام کی مثالیں تو دی جاتی ہیں لیکن ایک نظر بھارت کے آئینی ڈھانچہ پر بھی ڈالنی چاہیے۔ بھارت میں جب بھی کسی ریاست کی اسمبلی تحلیل ہوتی ہے وہاں فوراً نئے انتخابات کرا دیے جاتے ہیں جبکہ پاکستان کا نظام اس سے مختلف ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن بھی ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے‘ دیگر ریاستی ادارے اُس کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے‘ اُسے بھارتی سپریم کورٹ سے بھی مکمل معاونت اور گائیڈ لائن ملتی رہتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں