"KDC" (space) message & send to 7575

چودھری پرویز الٰہی کا سیاسی مستقبل

چودھری پرویز الٰہی اپنے 10سابق اراکینِ صوبائی اسمبلی سمیت تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے ان کو پارٹی کا مرکزی صدر بنانے کی سفارش بھی کر دی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی حالیہ کچھ مہینوں کے دوران عمران خان کے حق میں ویسے ہی بیان دیتے رہے ہیں جیسے وہ ماضی بعید میں نواز شریف اور پرویز مشرف کے حق میں دیا کرتے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو جس عہدے پر نامزد کرنے کی سفارش کی گئی ہے‘ وہ عہدہ جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد سے خالی تھا اور اسے اگست 2022ء میں تحریک انصاف کے دستور سے حذف کر دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کا یہ ترمیم شدہ دستور بھی الیکشن کمیشن میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205کے تحت جمع کرا دیا گیا تھا‘ جس میں پارٹی کے صدر کے عہدے کے حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے‘ لہٰذا چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے دستوری صدر تصور نہیں کیے جائیں گے اور ان کی حیثیت محض علامتی اور غیر دستوری ہی رہے گی۔ لگتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اپنی چشمِ تصور سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا سیاسی مستقبل دیکھ چکے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان‘ جو اس وقت مختلف مقدمات میں گھرے ہوئے ہیں اور اپنی سیاسی توانائیاں آئے دن اپنی حفاظتی ضمانتیں کروانے میں صرف کر رہے ہیں‘ کسی بھی کیس میں نااہل قرار پا کر پارٹی کی چیئرمین شپ سے فارغ ہو سکتے ہیں اور ایسی صورت میں پاکستان کی صفِ اوّل کی سیاسی جماعت کی کمان چودھری صاحب کے ہاتھ میں آ جائے گی۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو غالب امکان ہے کہ تحریک انصاف پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد چودھری پرویز الٰہی پاکستان مسلم لیگ (ق) کے بکھرے ہوئے ورکروں‘ حامیوں اور بااثر افراد کو بھی تحریک انصاف میں شامل کرکے آئندہ انتخابات میں حصہ لیں گے اور موجودہ اتحادی جماعتوں کو ٹف ٹائم دیں گے۔ چودھری پرویز الٰہی کے پنجاب میں شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں سے بننے والے پروفائل اور پرویز مشرف کے خاموش حامیوں کی حمایت سے انہیں انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی پنجاب کی اکثریت پرویز مشرف کی حامی رہی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 153(3) کے تحت ازخود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی بنچ تشکیل دے کر اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا روڈ میپ تشکیل دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 125کی تشریح کرکے ملک میں انتخابی بحران کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ازخود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کا بنچ بنانے کا استحقاق چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل ہے۔ اس بنچ میں شامل معزز ججوں کے حوالے سے کوئی بھی رائے دینا بلاجواز ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو معزز ججوں کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانا بھی قبل از وقت عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر اس ریفرنس کی بابت کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں تو پھر یہ ریفرنس دائر کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ بادی النظر میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وہاں نوے روز میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے اور ہو سکتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران اور سیاسی کشمکش کے پیش نظر دونوں اسمبلیاں بحال کر دی جائیں جس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً دسمبر 1988ء میں گورنر بلوچستان محمد موسیٰ خان نے بلوچستان اسمبلی تحلیل کردی تھی جسے بلوچستان ہائیکورٹ کے فل بنچ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جنوری 1989ء میں بحال کر دیا تھا۔ بادی النظر میں اب بھی دونوں صوبوں کی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے دونوں صوبوں میں سیاسی محاذ آرائی کو جو تقویت دی گئی‘ اس کے پیش نظر صوبائی اسمبلیوں کو بحال کرکے ملکی معیشت کو مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ دونوں صوبوں میں مقررہ مدت میں الیکشن کروانے کا فیصلہ جاری کرتی ہے اور وفاقی حکومت یہ فیصلہ کو تسلیم کر لیتی ہے(جس کے نہ تسلیم کیے جانے کی کوئی صورت نہیں) تو پھر وفاقی حکومت قومی‘ سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں بھی تحلیل کر سکتی ہے اور پورے ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہو سکتے ہیں لیکن اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں بحال ہو جاتی ہیں تو پھر پنجاب میں وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نہیں ہوں گے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205 کے تحت ان کی پاکستان مسلم لیگ (ق) کی رکنیت ختم کر دی گئی ہے۔
جناب آفتاب سلطان نے قومی احتساب بیورو کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ دیتے ہوئے اپنے اوپر دباؤ کا ذکر کیا ہے۔ اگر یہ محض پوائنٹ سکورنگ نہیں تو نہایت نا مناسب ہے۔ آفتاب سلطان بیورو کریسی میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کا پاس رکھا لیکن بطور چیئرمین قومی احتساب بیورو استعفیٰ دیتے ہوئے جو جواز پیش کیا وہ حکومت کی احتساب ادارے میں مداخلت کی شہادت دیتا ہے۔ حکومت کو اپنی یہ پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ جبکہ آفتاب سلطان نے مستعفی ہونے کے بعد ملک میں انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کی جو بات کی‘ وہ بھی معنی خیز ہے۔پاکستان کے معاشی مسائل کا اصل سبب کرپشن اور قومی وسائل کی بے دردی سے لوٹ مار ہے‘ جس پر اب بین الاقوامی طور پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جب پہلے سے ادارے موجود تھے‘ پھر قومی احتساب بیورو کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کیا اس ادارے نے اپنے قیام کا مقصد پورا کیا؟ قومی احتساب کمیشن سے لے کر قومی احتساب بیورو تک کی سرگزشت کافی طویل ہے جو پھر کبھی سہی۔ قومی احتساب بیورو کی افادیت اپنے چیئرمین کی رخصتی کے بعد اب برائے نام رہ گئی ہے لہٰذا جلد از جلد نیا چیئرمین نیب تعینات کیا جائے۔
اس سب سے ہٹ کر چند روز قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ایک امیدوار کو دو سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام نے قائمہ کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ بعض امیدوار بیک وقت پندرہ پندرہ حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں لیکن وہ قانون اور آئین کے آرٹیکل 223کے تحت ایک ہی نشست رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے ان کی خالی کردہ نشستوں پر آئین کے آرٹیکل 224کے تحت 60 روز میں دوبارہ انتخابات کرانا پڑتے ہیں۔واضح رہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی لیڈرشپ کی جانب سے ہمیشہ ایک سے زائد نشستوں سے الیکشن لڑنے کی روایت رہی ہے۔2018 کے الیکشن میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پانچ نشستوں سے الیکشن لڑا تھا اور پانچوں نشستوں سے کامیابی کے بعد ایک نشست اپنے پاس رکھ کر بقیہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔اسی طرح بلاول بھٹو‘ شہباز شریف سمیت دیگر کئی رہنماؤں نے بھی ایک سے زائد نشستوں سے الیکشن لڑا تھا۔ تاہم اس حوالے سے زیادہ بحث تب شروع ہوئی جب گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے بعد ضمنی انتخابات میں عمران خان نے قومی اسمبلی کی نو نشستوں سے الیکشن لڑا۔ ایک حلقے میں انتخاب کرانے کے لیے سرکاری اخراجات کا کم سے کم تخمینہ ڈھائی سے تین کروڑ روپے ہے جبکہ امیدوار الگ سے اپنی انتخابی مہم پر اخراجات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سرکاری محکموں کے عملے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی انتخابی عمل کے لیے خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ ان امور کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی اس تجویز پر بلاتاخیر عمل نہ کیے جانے کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں