"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن اور عدم مداخلت کی پالیسی

14جنوری کو پنجاب اور 18جنوری کو خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کے بھرپور دباؤ کے باوجود دونوں صوبوں میں آئین کے مطابق نوے روز میں الیکشن کے انعقاد کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ میں متعلقہ صوبوں میں نوے روز کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے درخواستیں بھی دائر کیں لیکن پھر بھی وقتِ مقررہ پر انتخابات کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔ ابھی ان درخواستوں پر کارروائی جاری ہی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے دونوں صوبوں میں انتخابات کے وقت مقررہ پر انعقاد کے لیے از خود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی بنچ تشکیل دیا۔ چار اراکین کی بنچ سے علیحدگی کے بعد تین‘ دو کی اکثریت سے سپریم کورٹ کا صائب فیصلہ جاری ہوا کہ دونوں صوبوں میں نوے روز کے اندر اندر الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے‘ اس مقصد کے لیے صدرِ مملکت پنجاب اور گورنر خیبر پختونخوا‘ کے پی میں نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخوں کا اعلان کریں گے اور الیکشن کمیشن اعلان کردہ تاریخوں پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے گا؛ تاہم عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو یہ اجازت دی کہ وہ پولنگ کی ایسی تاریخ تجویز کرے جو کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں 90 روز کی آخری تاریخ سے کم سے کم تاخیر کا شکار ہو۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں صدرِ مملکت پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی مشاورت سے 30 اپریل کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ (2)57کے تحت پنجاب میں الیکشن شیڈول بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق امیدوار 12 سے 14 مارچ تک کاغذات نامزدگی جمع کرا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن امیدواروں کے ناموں کی فہرست 15مارچ کو آویزاں کرے گا اور کاغذاتِ نامزدگی کی سکروٹنی 22 مارچ تک کی جائے گی۔ سکروٹنی پر ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں 27 مارچ تک دائر کی جا سکیں گی۔ اپیلیٹ ٹریبونل مذکورہ اپیلوں پر 3 اپریل تک فیصلے کرے گا اور امیدواروں کی نظرثانی شدہ فہرست 4 اپریل کو جاری کی جائے گی۔ شیڈول کے مطابق امیدواروں کی انتخابات سے دستبرداری کی آخری تاریخ 5اپریل مقرر کی گئی ہے جبکہ انتخابی نشان 6اپریل کو الاٹ کیے جائیں گے اور اس کے بعد 30 اپریل کو صوبے میں پولنگ ہو گی۔یہ انتخابات عدلیہ نہیں بلکہ انتظامیہ کی نگرانی میں ہوں گے۔انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد امیدواروں کے پاس اپنی انتخابی مہم کے لیے 22روز یا تقریباً تین ہفتوں کا وقت ہوگا۔ اس دوران امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی اور دفعہ 144کا نفاذ بھی نہیں کیا جائے گا لیکن انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کے ضابطہ کار کو ملحوظِ خاطر رکھنا لازمی ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے انتخابی شیڈول جاری کرنے کے بعد وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی پابند ہے اور اُسے یقینی بنانا ہوگا کہ انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس وقت انتخابی اخراجات کی فراہمی کے حوالے سے متضاد آرا سننے میں آ رہی ہیں‘ لازم ہے کہ مشکل معاشی صورتحال کے باوجود حکومت الیکشن کمیشن کو انتخابی اخراجات کی بروقت فراہمی یقینی بنائے۔
دوسری طرف خیبرپختونخوا میں منگل کے روز صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی اور الیکشن کمیشن کا مشاورتی اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا اور اس ضمن میں آئندہ ہفتے اسلام آباد میں ایک اور مشاورتی اجلاس کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ گوکہ یہ اجلاس خوشگوار ماحول میں منعقد ہوا‘ اس کے باوجود فریقین کا انتخابات کے لیے کسی حتمی تاریخ پر متفق نہ ہوناسمجھ سے بالاتر ہے۔ اجلاس میں انتخابات پر آنے والے اخراجات اور سکیورٹی معاملات بھی زیرِ غور آئے کیونکہ گورنر خیبر پختونخوا اس سے پہلے بھی کئی مواقع پر صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 105کے تحت گورنر صوبے میں عام انتخابات کی تاریخ اسمبلی کی تحلیل کے فوراً بعد دے گا لیکن کے پی میں اسمبلی تحلیل ہوئے ڈیڑھ ماہ سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک وہاں انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن گورنر خیبر پختونخوا سے مشاورت کا اپنا آئینی عمل پورا کر چکا ہے۔ الیکشن کمیشن ریاست کا اہم ترین ادارہ ہے‘ یہ ادارہ اپنے فرائض بخوبی انجام دیتا ہے تو ہی حکومت وجود میں آتی ہے۔ اراکینِ پارلیمنٹ کا گزٹ نوٹیفکیشن اور ان کی نشست سے محرومی پر ڈی نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن ہی جاری کرتا ہے۔ نگران سیٹ اَپ بھی الیکشن کمیشن کی مشاورت اور منظوری ہی سے تشکیل پاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات آئین کے آرٹیکل 62‘ 63‘ 204‘ 218‘ 219‘ 220اور 237میں متعین کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت الیکشن کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سکیورٹی اداروں سے بھی مدد لینے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انتخابات کا بروقت اور شفاف ہونا جمہوری عمل کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے۔ گو کہ پاکستان میں جمہوری ادوار میں بھی اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جب وہاں نئے انتخابات کی تاریخ کا مسئلہ سامنے آیا تو اس معاملے میں آئین سے مدد لینے کے برعکس یہ معاملہ عدالت کے روبرو پیش ہوا؛ تاہم صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا آئین کے آرٹیکل 105کے تحت گورنر کا صوابدیدی اختیار ہے پھر بھی گورنر خیبر پختونخوا صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ اگلے اجلاس میں گورنر خیبر پختونخوا صوبے میں انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں گے اور یہ معاملہ مزید طول اختیار نہیں کرے گا۔
اُدھر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ سیاستدان اپنے مسائل خود حل کریں‘ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ شنید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا اور صدرِ مملکت نے یہ ملاقات ممکن بنانے کی اپنی سی کوشش بھی کی لیکن دوسری طرف سے صاف الفاظ میں انکار کرتے ہوئے یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں۔ سیاستدان سیاسی معاملات خود نمٹائیں۔ سیاست میں مداخلت کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کا سلسلہ ایوب خان کے دور سے جا ملتا ہے لیکن سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی آخری تاریخ میں دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ فوج آئندہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی اور موجودہ آرمی چیف عدم مداخلت کی اسی پالیسی پر سختی سے کاربند ہیں جس کا واضح ثبوت یہی ہے کہ انہوں نے سپہ سالار بننے کے بعد سے کسی بھی سیاستدان سے کوئی ملاقات نہیں کی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ خان صاحب‘ جو پہلے مقتدرہ کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے تھے اور عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کرنے پر زور دیتے تھے‘ اب جبکہ عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے تو خان صاحب پھر سے مقتدرہ کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں