"KDC" (space) message & send to 7575

صوبائی انتخابات اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 10اپیلٹ ٹریبونلز کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق یہ ٹریبونلز آر اوز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں نمٹائیں گے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورتی اجلاس بھی کیا ہے۔ اجلاس میں دونوں صوبوں کے چیف سیکرٹریز‘ آئی جیز اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی بریفنگ کا جائزہ لیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے متعلقہ اداروں سے مشاورتی عمل کو آئین کے آرٹیکل (3)218 کے مطابق مکمل کرکے فیصلہ وقتی طور پر محفوظ کر لیا ہے۔الیکشن کمیشن 30اپریل کو پنجاب اور 28مئی کو خیبر پختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کیلئے انتظامات کا جائزہ لیتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58کو بھی مدنظر رکھے گا۔ اس دفعہ کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن شیڈول میں رد و بدل کر سکتا ہے اور اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان ان تاریخوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو الیکشن ایکٹ کی اس دفعہ میں اس سے متعلق صدرِ مملکت کو محض اطلاع دینے کا ذکر ہے۔ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان ناگزیر وجوہ کی بنا پر الیکشن شیڈول کو تبدیل کرکے نئی تاریخ دیتے ہوئے الیکشن شیڈول میں توسیع کر چکا ہے۔ شنید ہے کہ وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی مشترکہ لائحہ عمل کے تحت انتخابات کے انعقاد کا معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ابھی دونوں صوبوں کے 67 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں پر امن و امان یقینی بنانے کے لیے پولیس‘ رینجرز اور آرمی کی خدمات بھی حاصل کرنی ہیں۔ ان 67 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنوں پر تقریباً پونے 9 لاکھ کے لگ بھگ پولنگ عملہ تعینات ہوگا۔ انتخابات کے شفاف انعقاد کیلئے بھی پولنگ سٹیشنوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی ضروری ہے۔ پریذائیڈنگ افسران کو انتخابی نتائج ریٹرننگ افسران تک پہنچانے کیلئے بھی سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہوگی تاکہ ہارنے والی جماعت کے حامی اُن پر کوئی ہلہ نہ بول سکیں۔ اگر پریذائیڈنگ افسران کو انتخابی نتائج کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کیلئے سکیورٹی اہلکار فراہم نہیں کیے جاتے تو خدانخواستہ ڈسکہ الیکشن کی تاریخ دہرائے جانے کا امکان ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈسکہ میں 19فروری 2021ء کو ضمنی انتخاب منعقد کروایا گیا تھا جہاں 22 کے لگ بھگ پریذائیڈنگ افسران 18 گھنٹوں تک غائب رہے اور مبینہ طور پر موسم کی خرابی کے باعث ریٹرننگ افسر تک انتخابی نتائج نہ پہنچا سکے۔ جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا جس پر الیکشن کمیشن نے ایک تفتیشی رپورٹ تیار کی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دھاندلی کی گئی جس کی منصوبہ بندی میں اُس وقت وفاقی وزیر اطلاعات بھی ملوث تھیں۔ رپورٹ کے مطابق اس انتخاب کے دوران 20 ایسے پولنگ سٹیشن سامنے آئے تھے جہاں انتخاب کے دوران پولیس افسران نے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں‘ بروقت انتخاب نہیں ہوا اور یہ پورا عمل کرپشن کا شکار رہا۔ یہ رپورٹ جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر سعید گل نے تیار کی تھی اور اس رپورٹ کی تکمیل کے لیے ان تمام افسران اور ریٹرننگ افسران سے تفتیش کی گئی جو اس روز ڈیوٹی پر موجود تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ واقعے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 'الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی‘ پر ڈسکہ میں ہونے والے اس ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔اس انتخاب میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اْمیدوار سیدہ نوشین افتخار کا مقابلہ پاکستان تحریکِ انصاف کے علی اسجد ملہی سے تھا۔سیدہ نوشین افتخار کے والد کی وفات کے بعد ہی یہ نشست خالی ہوئی تھی۔بعد میں علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن کے انتخاب کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا تاہم عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔اس کے بعد 10 اپریل کو ڈسکہ میں ضمنی انتخاب دوبارہ منعقد ہوا تھا جس میں سیدہ نوشین افتخار کامیاب ہوئی تھیں۔قصہ مختصر یہ کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈسکہ الیکشن کی رپورٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ سکیورٹی کے مناسب بندوبست کے بغیر دونوں صوبوں میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ سکیورٹی کی فراہمی کے بغیر نہ صرف امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ یہ انتخابات بھی دھاندلی زدہ ہو سکتے ہیں۔ ملک میں موجودہ انتشار اور سیاسی عدم استحکام روز افزوں ہے۔ نظم و ضبط کے فقدان کی وجہ سے اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس اور لاہور ہائی کورٹ میں مختلف مقدمات کی پیشی کے مواقع پر تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے جس قسم کا رویہ اپنایا گیا‘ پولنگ کے روز بھی ایسا ہی رویہ اپنائے جانے کا اندیشہ ہے‘ جس سے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ ملکی تاریخ میں پولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کرنے‘ پولنگ عملہ کو زد و کوب کرنے‘ انتخابی ریکارڈ تلف کرنے کی مثالی موجود ہیں۔
گوکہ الیکشن کمیشن نے بیورو کریسی سے اچھے کردار کے حامل افسران کا بطور ریٹرننگ افسران تقرر کیا ہے جو انتظامی معاملات اور امور پر مکمل دسترس رکھتے ہیں لیکن ان کی صلاحیت اور کارکردگی تب ہی بروئے کار لائی جا سکے گی جب انہیں مکمل تحفظ کا یقین دلایا جائے گا۔ لاہور میں زمان پارک اور اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں پیش آنے والے واقعات کے بعد تو مجھے صوبائی انتخابات کے انعقاد میں بھی ایسے واقعات دہرائے جانے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ہے۔ کوئی مخصوص سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ہر جماعت کی الیکشن کے روز یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ممکن اقدام سے اپنی جیت یقینی بنائی جا سکے۔
عالمی برادری اور بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کے واقعات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ دنیا میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ موجودہ سیاسی انتشار اور عدم استحکام نے نہ صرف ملکی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں بلکہ قوم کے مستقبل کو سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ ملک و قوم کے محفوظ و مضبوط مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ آئین و قانون کا مکمل نفاذ یقینی بنایا جائے۔ ملک میں آئین و قانون کی پاسداری اور دو صوبوں کے متوقع انتخابات کے پیش نظر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے جس میں اہم ریاستی اداروں کو بھی مدعو کیا جائے اور اس میں موجودہ درپیش چیلنجز اور انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جائے۔
ہماری نوجوان نسل اب اتنی باشعور ہو چکی ہے کہ اپنا مستقبل محفوظ و تابناک بنانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے لیکن موجودہ ملکی حالات ان میں مایوسی پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ نوجوان نسل کی باضابطہ تربیت کے فقدان کی وجہ سے وہ ایک بے سمت جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ روز افزوں مہنگائی اور بے روز گاری اُنہیں بے راہ روی میں مبتلا کر رہی ہے۔ چار سُو بکھری یہ مایوسی انہیں انسانی سمگلروں کا آسان ہدف بنا رہی ہے۔ یہ نوجوان والدین کا لاکھوں روپیہ برباد کرکے غیرقانونی راستوں سے معاشی طور پر مضبوط ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اُس انجام سے دوچار ہوتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ گزشتہ دنوں اٹلی میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کی صورت میں دیکھا گیا۔ لازم ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت نوجوان نسل کے محفوظ و تابناک مستقبل کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں