"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابات کا التوا اور فل کورٹ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22 مارچ کی رات الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 58 اور آئین کے آرٹیکل (3)218 کے تحت پنجاب اسمبلی کے 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیے ہیں‘ جو اب 8 اکتوبر 2023ء کو ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کیے گئے حالات کے باعث 30 اپریل کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے‘ اس لیے الیکشن کمیشن آٹھ مارچ کو جاری کردہ شیڈول سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اب الیکشن آٹھ اکتوبر کو منعقد کرایا جائے گا جس کے لیے مناسب وقت پر نیا شیڈول جاری کیا جائے گا جبکہ صدرِ مملکت کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ بین السطور میں الیکشن کمیشن کے حکم نامے سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی اور خلفشار کے ماحول میں انتخابات کرائے گئے تو یہ امن و امان کی صورتحال کی خرابی اور خون ریزی کا سبب بن سکتے ہیں۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن کو پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ نہ تو گورنر خیبر پختونخوا کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی کوئی تاریخ دی گئی تھی اور نہ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا کے لیے کوئی انتخابی شیڈول جاری کیا تھا‘ اس لیے خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات بھی 8 اکتوبر تک ہی ملتوی تصور ہوں گے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کا حکم زمینی حقائق اور آئین کے آرٹیکل (3)218 کے عین مطابق ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22مارچ کی رات کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق جو حکم نامہ جاری کیا‘ اس میں یہ تمام حقائق واضح کیے گئے ہیں۔ مذکورہ حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے آئین کے آرٹیکل (3)218 کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے‘ جس کے مطابق الیکشن کمیشن کیلئے ضروری ہے کہ وہ جب انتخابات کرائے تو یہ انتخابات صاف‘ شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے ماحول بھی سازگار ہونا چاہیے‘ ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز پر جاتے ہوئے کوئی تھریٹ الرٹ نہ ہو؛یعنی انتخابات کے پُرامن انعقاد کی مکمل یقین دہانی کے بعد ہی انتخابات ہو سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے اپنے حکم نامے میں اسی نکتے کو بنیاد بنایا ہے کہ اس وقت ملک کے حالات سازگار نہیں ہیں جبکہ الیکشن کمیشن شفاف‘ منصفانہ اور بدعنوانی کے تمام راستے بند کرتے ہوئے پُرامن ماحول میں الیکشن کرانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن کے بلائے گئے اجلاس میں پیش کی جانے والی رپورٹس‘ بریفنگز اور مواد کے پیش نظر یہی سب سے مناسب صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 30اپریل کو انتخابات کا پُرامن انعقاد یقینی بنانے کے لیے وزارتِ دفاع اور وزارتِ داخلہ کو فوج کے دستے طلب کرنے کی ہدایت کی گئی؛ تاہم وزارتِ دفاع کی طرف سے کمیشن کو بتایا گیا کہ سرحد پر امن و امان کی صورت حال اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث فوج الیکشن کے لیے مکمل ڈیوٹی نہیں دے سکتی اور الیکشن کی صورت میں صرف کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کام کرے گی۔ قصہ مختصر یہ کہ وزارتِ دفاع نے الیکشن کے نو لاکھ عملے اور ووٹرز کو تحفظ دینے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے مالی بحران کی وجہ سے الیکشن کے لیے مطلوب فنڈز کی عدم فراہمی کا بھی ذکر کیا گیاہے۔ مطلوب سکیورٹی اور فنڈز کی عدم فراہمی کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے انتخابات کے التوا کا جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے ‘ وہ کسی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ الیکشن شیڈول میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں جہاں تک سپریم کورٹ کے آئینی مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے فیصلے کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت ریاست کی محافظ ہے‘ وہ بھی زمینی حقائق اور حساس اداروں کی رپورٹ کو مدنظر رکھے گی۔ الیکشن کمیشن ایک اہم ترین ریاستی ادارہ ہے جو ہائیکورٹ کے برابر اختیارات رکھتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر بھی آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے برابر اختیارات رکھتے ہیں۔ لہٰذا عدالت الیکشن کمیشن کے مذکورہ فیصلے کو اس تناظر میں دیکھتے ہوئے ملکی و قومی مفاد میں ایسا فیصلہ کرے گی‘ جس پر سب کو عمل کرنا پڑے گا۔
یکم مارچ کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختوانخوا میں 90روز میں الیکشن کرائے جائیں۔ اس مقصد کے لیے عدالت نے صدرِ مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وفاق کی ڈیوٹی ہے کہ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سکیورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں‘ جس کے بعد صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد پنجاب میں 30اپریل کو انتخابات کا اعلان کیا جبکہ گورنر خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن سے دو بار مشاورت کے باوجود الیکشن کی کوئی حتمی تاریخ نہ دے سکے۔ گوکہ ان کی طرف سے ایک بیان میں 28مئی کا تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اسے ضابطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکا۔ وفاق کی ایگزیکٹو اتھارٹیز کے عدم معاونت کی وجہ سے ہی الیکشن کمیشن کا پرانا انتخابی شیڈول ملتوی کرنا پڑا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی انتخابی تاریخ کے بعد اپوزیشن اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جا رہی ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف بارہا یہ اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ منعقد ہونے چاہئیں‘ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا گیا۔ حکومتی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک ہی دن میں الیکشن نہ ہونے کی صورت میں پنجاب اور کے پی میں بننے والی نئی صوبائی حکومتیں بعد میں قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز ہوں گی۔ سیاسی تاریخ میں مذاکرات کے ذریعے مشکل ترین ڈیڈ لاک ختم کرنے کی بیشتر مثالیں موجود ہیں‘ انتخابات پر ڈیڈ لاک کا بہترین حل بھی مذاکرات ہی ہیں۔ تحریک انصاف نے ابتدا میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی‘ اب جب معاملہ ان کے ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا ہے تو ان کی اعلیٰ قیادت نے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے جو خوش آئند ہے۔
دوسری طرف جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا‘ الیکشن کمیشن کے پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنے کے فیصلے کے خلاف تحریک انصاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر چکی ہے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کے مطابق سپریم کورٹ اسی ہفتے پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق اہم مقدمات کی سماعت کرے گی۔ اس صورتحال میں میری استدعا ہے کہ ریاست کے وسیع تر مفاد اور انتخابی امور پر ہمیشہ کے لیے ایک تاریخی فیصلہ دینے کے لیے فل کورٹ بنچ بنایا جائے تاکہ اس حوالے سے کسی فریق کو کوئی تشنگی نہ رہ جائے۔ فل کورٹ کا فیصلہ تمام شکوک و شبہات کو دور کر کے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار کرے گا،لہٰذا ملک کے وسیع تر مفاد میں فل کورٹ کا بنچ تشکیل دیا جانا چاہئے تاکہ یہ معمہ ہمیشہ کے لیے حل ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں