"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ‘الیکشن کی تاریخ اور الیکشن کمیشن

قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوانِ بالا نے بھی عدالتی اصلاحات سے متعلقہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ سینیٹ میں اس بل کے حق میں 60اور مخالفت میں 19ووٹ آئے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی اس بل کے مسودے کے مطابق اب از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی‘ جس میں چیف جسٹس اور دوسرے اور تیسرے نمبر کے دو سینئر ترین جج شامل ہوں گے اور اس کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔ اس سے قبل یہ اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ہوا کرتا تھا۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا اختیار محدود کرنے کے حوالے سے کی جانے والی اس قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی ٹائمنگ پر سوالیہ نشان ہے۔جہاں پی ٹی آئی کی جانب سے اس بل کی منظوری کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں‘ وہیں حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا نہیں بلکہ اس حوالے سے مراحل کا تعین کرنا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے۔آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق از خود نوٹس لینے کا اختیار حاصل ہے جو یا تو مفاد عامہ کا معاملہ ہو یا پھر جہاں پر بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔ بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں‘ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون‘ قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔پاکستان بار کونسل نے مذکورہ بل کی حمایت کی ہے جبکہ سپریم کورٹ بار کونسل کی طرف سے اس کی مخالفت سامنے آئی ہے۔
حالیہ کچھ عرصہ کے دوران ملک میں مخصوص ایجنڈے کے تحت ریاستی اداروں پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے جس کا مقصد بظاہر اداروں میں تقسیم پیدا کرنا ہے۔ اداروں میں تقسیم پیدا کرنے کی اس مہم جوئی نے اب عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس حوالے سے نئی بحث پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے اجرا میں تاخیر سے متعلق عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس میں دو اور تین کے اکثریتی فیصلے اور اس حوالے سے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے دو معزز ججوں کے تفصیلی اختلافی فیصلے سے شروع ہوئی۔دونوں جج صاحبان نے 27 صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ کو فیصلہ قرار دیتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی درخواستیں مسترد کر دیں اور لاہور اور پشاور ہائیکورٹس کو اس حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایت کی‘ کیونکہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے از خود نوٹس سے قبل دونوں ہائی کورٹس میں زیرِ سماعت تھا۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیڈرل ازم کا بنیادی اصول صوبائی خودمختاری ہے‘ ہائیکورٹ صوبائی سطح پر سب سے اعلیٰ آئینی ادارہ ہے اور یہ کہ صوبائی معاملات میں سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ہائیکورٹ کی خودمختاری کو مجروح نہیں کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے ایک بحث یہ ہے کہ متذکرہ فیصلہ تین اور دو کا نہیں بلکہ تین اور چار کا ہے اور یہ فیصلہ دو دیگر ججز‘ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کا ہی تسلسل ہے کیونکہ کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا اور ابتدائی طور پر اس پر نو رکنی لارجر بینچ بنایا گیا تھا؛تاہم بنچ میں شامل دو ججز‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی سے متعلق کچھ جج صاحبان کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا کیونکہ وہ پہلے ہی ایک دیگر کیس میں انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دے کر مزید سماعت کے لیے اس کیس سے متعلق چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کر چکے تھے۔ اعتراضات سامنے آنے پر یہ دونوں جج صاحبان بینچ سے علیحدہ ہو گئے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی کیس سننے سے معذرت کرلی‘ جس کے بعد پانچ رکنی بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی۔اس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ 90 روز میں الیکشن کرائے جائیں۔ پانچ رکنی بینچ نے تین دو کی اکثریت سے یہ فیصلہ سنایا تھا۔اب جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تفصیلی اختلافی فیصلے کے بعد دو تین کا جو فیصلہ آیا تھا‘ وہ چار‘ تین کا اختلافی فیصلہ قرار دیا جانے لگا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا کہ اختلافی فیصلہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے مگر بادی النظر میں اس فیصلے کے مستقبل میں گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے جو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور ہوا ہے‘ جس کے تحت چیف جسٹس کے از نوٹس کے اختیارات میں کمی کی گئی ہے‘ انہی اختیارات پر نظرثانی کا اشارہ اس فیصلے میں دیا گیا تھا۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ جلد بازی میں کوئی کارروائی کرنے کے بجائے سینئر ترین ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دے کر گہرے غور و فکر اور آئین کی روشنی میں معاملات کو دیکھا جائے۔ ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی بحران میں عوام کی نگاہیں اعلیٰ عدالتوں پر ہی ٹکی ہوئی تھیں‘اب اگر جوڈیشل سسٹم کو بھی متنازع بنا دیا جاتا ہے تو یہ صورتحال ملک کے مستقبل کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دے گی۔ یہ تاثر زائل ہوناچاہیے کہ دوسرے ریاستی اداروں کی طرح عدلیہ بھی تقسیم کا شکار ہے۔ ملک کی موجودہ سنگین صورتحال کے پیش نظر‘ آئین و قانون کی حکمرانی کا یہی تقاضا ہے کہ حساس ترین معاملات پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بنچ فیصلے کرے اور جن کمزوریوں کی دو معزز ججوں نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی ہے‘ انہیں دور کرتے ہوئے اس حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا راستہ بند کیا جائے۔
سپریم کورٹ پنجاب اور کے پی الیکشن کے حوالے سے کیا فیصلہ دیتی ہے‘ اس کا انتظار ہے مگر میری نظر میں اس اہم ترین کیس کے فیصلہ کے بعد انتظامی طور پر اہم تبدیلیاں آنے کی توقع ہے۔ صدر کا وزیاعظم کو خط بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ایوانوں سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات محدود کرنے کا جو بل منظور ہو چکا ہے‘ اس حوالے سے اکثر ججز کی وہی رائے ہے ‘ جس کی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نشاندہی کر چکے ہیں۔میری ناقص رائے میں سپریم کورٹ آف پاکستان الیکشن میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کیس ریمانڈ کرے اور الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کے تحت وفاقی حکومت سمیت تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز بالخصوص سکیورٹی اداروں سے مشاورت کرنے کے بعد پنجاب میں نیا انتخابی شیڈول جاری کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں