"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ‘ ازخود نوٹس اور الیکشن کمیشن

عدالت ِ عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف دائر کی گئی تحریک انصاف کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران ایک موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال شدید جذباتی ہو گئے اور فرطِ جذبات سے ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر روسٹرم پر آ گئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کو آنسو نہیں بہانے چاہئیں‘ وہ آئین و قانون کی روشنی میں فیصلے کریں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ کہنا کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہو گا‘ بھی معنی خیز ہے اور میری رائے میں چیف جسٹس کو ایسے ریمارکس نہیں دینے چاہئیں۔ چیف جسٹس کی طاقت سپریم کورٹ کے فاضل ججز ہوتے ہیں جبکہ متنازع ازخود نوٹس کیس میں ججز کی اکثریت بظاہر ان سے علیحدہ ہو چکی ہے‘ شاید اسی وجہ سے چیف جسٹس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ہوں۔ چیف جسٹس کا تین رکنی بنچ الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتا ہے تو الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218(3) کی روح کے خلاف سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے معذرت کر سکتا ہے جبکہ وفاقی حکومت بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قانون سازی کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ ماننے سے معذرت کر سکتی ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس وقت 1997ء کے حالات میں کھڑے ہیں۔ دوسری جانب عدالتی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد صدر مملکت کے پاس توثیق کے لیے جا چکا ہے؛ تاہم اس نئے قانون سمیت کئی امور پر مباحث کا سلسلہ جاری ہے لیکن عام آدمی کو مجوزہ ترامیم سے کوئی سروکار نہیں۔عام آدمی کے نزدیک یہ اشرافیہ کی مفاد پرستانہ جنگ ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کے لیے کب ووٹ دینے ہیں‘ قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کی پولنگ ایک ہی دن ہونا ہے یا دیگر طریقے اختیار کیے جائیں‘ عام آدمی کے لیے یہ مسائل اہمیت کے حامل نہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل جسے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس کے اختیارات کے حوالے سے نیا طریقہ وضع کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے‘ وکلا تنظیموں کی مختلف آرا کی زد میں ہے۔ پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کے عہدیداروں کے مطابق عدالت عظمیٰ سے متعلق قانون سازی قابلِ ستائش ہے۔ اُن کے نزدیک آرٹیکل 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دینا فریقین کے لیے فائدہ مند ہو گا۔ سندھ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ اصلاحات سے عدلیہ کی آزادی کو تقویت ملے گی اور عام آدمی کی انصاف تک رسائی آسان ہو گی۔ پنجاب بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران نے بھی آرٹیکل 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دیے جانے کو سب فریقین کے لیے سودمند قرار دیا ہے‘جبکہ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات بل منظور ہونے پر نواز شریف کو اپیل کا حق ملنے سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلیت کالعدم ہو جائے گی‘مگر وکلا کی سب سے بڑی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس کا اختیار محدود کرنے کی مخالفت میں تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل2023ء منظور کر لیا ہے جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار محدو د کرنا اور اس حوالے سے بینچوں کی تشکیل اور اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی کو دینا شامل ہے۔ متذکرہ قانون کے تحت نواز شریف‘ یوسف رضا گیلانی اور جہانگیر ترین سمیت دیگر اپنے خلاف دیے گئے سابقہ فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ ایکٹ آف پارلیمنٹ بن جائے گا۔ اگر صدر مملکت اس پر رائے نہیں دیتے تو یہ دس روز کے اندر ازخود قانون بن جائے گا۔
آئین کے آرٹیکل 184(3) کی رُو سے سپریم کورٹ کو کسی بھی ایسے واقعے سے متعلق ازخود کارروائی کا اختیار حاصل ہے جو یا تو مفادات کا معاملہ ہو یا پھر بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہوں۔ اس صورت میں عدالتِ عظمیٰ کسی ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر براہِ راست کارروائی کر سکتی ہے۔ ایسی کارروائی میں دو قسم کے کیس شامل رہے ہیں‘ ایک وہ جن میں کوئی درخواست گزار پٹیشن لے کر جائے‘دوسرے وہ جن میں عدالت ازخود کارروائی کرے۔ اس اختیار کی وجہ سے مفادِ عامہ کے کئی معاملات میں عدالتی مداخلت کو قابلِ تحسین قرار دیا گیا جبکہ بعض مواقع پر سوالات بھی اُٹھے۔ حالیہ دنوں اچانک پارلیمنٹ سے یہ بل پاس کرانے کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن اور اس کی تاریخ کے تعین سے بھی جوڑا جا رہا ہے حالانکہ یہ معاملہ ایک یا دو صوبوں کا نہیں‘ اس کی کڑیاں قومی اسمبلی کے انتخابات سے بھی ملتی ہیں اور اس معاملے پر جب ازخود نوٹس لینے کا سوال اٹھتا ہے تو ماضی میں فردِ واحد کے لیے کیے جانے والے فیصلوں اور اس حوالے سے قانونی حلقوں کی متضاد آراء اور تحفظات کی روشنی میں لاحاصل بحث و تکرار سامنے آتی ہے اور ان حالات کو اگر ماضی میں ازخود نوٹس لینے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو مہیب تصویر سامنے آتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت کی توسیع کی تاریخ کو مدنظر رکھیں کہ اعلیٰ عدالت کے معزز چیف جسٹس نے نامعلوم‘ غیر معروف شخص کی جانب سے دائر کی گئی اپیل کو بعد ازاں ازخود نوٹس میں تبدیل کر کے حساس ترین ادارے کے سربراہ کو متنازع بنا دیا اور حکومت کا دفاع کرنے کے لیے وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم کو وزارت سے مستعفی کروا کے ان کو وکالت کے فرائض دیے گئے۔اس طرح کی درجنوں مثالیں ریکارڈ میں موجود ہیں۔ دوسری جانب جب کسی سیاسی پارٹی کے مفادات کو تحفظ دینا مقصود تھا تو بلوچستان الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کرتے ہوئے چار سال سے کیس کی سماعت نہیں کی گئی اور اس دوران قاسم سوری ڈپٹی سپیکر اور قائم مقام سپیکر کے عہدے پر فائز ہو کر بقول سپریم کورٹ آئین شکنی میں بھی ملوث رہے اور ابھی تک ان کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ نہیں کیا اور حکمِ امتناعی جاری ہے۔اس سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھا جائے تو ترمیم شدہ قانون کے تحت عدالتی نظام پر اس کے دُوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصولی طور پر کوئی بھی قانون پارلیمنٹ سے بحث مباحثے کے بعد خامیوں سے حتی الوسع پاک ہو کر وجود میں آتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ حسبِ ضرورت اس میں ترمیم یا ردّ و بدل بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب کوئی معاملہ اس سے متصادم ہوتا دکھائی دے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے وقار کو بچانے کے بارے میں سوچناچاہیے۔ اب بھی وقت ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اقتدار کی راہ داریوں سے نکل کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں