"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن کے اختیارات

منگل کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 22مارچ کے اُس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیاجس میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8اکتوبر تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔ ساتھ ہی بینچ نے وزارتِ خزانہ‘ وزارتِ داخلہ‘ وزارتِ دفاع اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد متعین کردہ تاریخ‘ 14مئی کو یقینی بنانے کا حکم بھی جاری کیا۔ بادی النظر میں اس فیصلے میں الیکشن سے متعلق بہت سی اہم شقوں کو مد نظرنہیں رکھا گیاتاہم مذکورہ فیصلے میں الیکشن شیڈول جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ کاغذاتِ نامزدگی 10 اپریل کو جمع کروائے جائیں‘ حتمی لسٹ 19 اپریل تک جاری کی جائے اور انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں۔مزید یہ کہ ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیلیں جمع کرانے کی آخری تاریخ 10 اپریل ہوگی اور 17 اپریل کو الیکشن ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ کرے گا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خودمختار ادارہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے 22مارچ کے فیصلے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 58کے تحت 8 اکتوبر 2023ء تک کے لیے الیکشن ملتوی کر دیے تھے۔ ماضی میں بھی اسی شق کے تحت انتخابات مؤخر ہوتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان 1972ء کے عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 108‘ جو کہ اب الیکشن ایکٹ 2018ء کی شق 58 میں شامل ہے‘ کے تحت الیکشن شیڈول تبدیل کرنے کا مجاز ہے۔ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن ناگزیر وجوہ کی بنا پر 60دن کے بجائے کئی کئی مہینوں کی تاخیر سے ضمنی الیکشن اور جنرل الیکشن کرا چکا ہے۔ جنہیں کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس قاضی محمد فاروق‘ جسٹس سردار فخر عالم‘ جسٹس نعیم الدین‘ جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس صابر علی مرزا کے ادوار میں مختلف انتخابات کی تاریخیں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
بادی النظر میں الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کے تحت 30اپریل کے انتخابات کو 8اکتوبر تک موخر کرنے کا فیصلہ اگست میں قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے تناظر میں کیا تھا۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے صدرِ مملکت کو مطلع بھی کر دیا تھا مگر صدرِ مملکت نے اس پر کوئی زبانی یا تحریری ردِعمل نہیں دیا اور الیکشن کمیشن کے بجائے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھ دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیراعظم‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔ اصولی طور پر صدرِ مملکت کو الیکشن کمیشن کو اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کرنا چاہیے تھا لیکن صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے پر کسی قسم کا ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس سے تو یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا تو پھر صدرِ مملکت کو الیکشن کی تاریخ موخر ہونے پر کوئی اعتراض تھا ہی نہیں۔
اُدھر سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر وفاقی حکومت کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے جس کا اطلاق حکومت پر لازم نہیں جبکہ جمعرات کو قومی اسمبلی نے اس تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی قرارداد بھی منظور کر لی جس میں کہا گیا تھا کہ حالیہ فیصلے سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا اور ایوان ایک ہی وقت میں ملک میں انتخابات کو مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے سے موجودہ آئینی و سیاسی بحران ختم نہیں ہو گا بلکہ مزید شدت اختیار کرے گا۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس مسترد کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں وفاقی حکومت کو یہ حکم بھی جاری کیا گیا کہ وہ الیکشن کمیشن کو 10اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرے جبکہ پنجاب کی نگران حکومت کی کابینہ سکیورٹی پلان جمع کرائے۔ وفاقی حکومت کو شفاف‘ غیر جانبدارانہ اور قانون کے مطابق انتخابات کرانے کے لیے فوج‘ رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے عملے اور دیگر وسائل کی فراہمی کی ہدایت بھی کی گئی۔ اگر حکومت کی طرف سے الیکشن کے لیے مطلوب فنڈز مہیا نہ کیے گئے تو عدالت متعلقہ حکام کو براہِ راست حکم جاری کرسکتی ہے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کا تعلق ہے تو گورنر خیبرپختونخوا کے وکیل نے ازخود نوٹس کیس میں فریق بننے سے معذرت کی تھی‘ اس لیے عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے اس حوالے سے کوئی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا اور وہاں الیکشن کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا لیکن پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں الیکشن کمیشن اور گورنرکے پی کو فریق بنایا گیا ہے اور یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ گورنر کے پی یکم مارچ کے عدالتی حکم پر عمل نہیں کر رہے اور یہ کہ انہوں نے میڈیا پر 28 مئی کی تاریخ کا اعلان کیا تھا مگر بعد میں مکرگئے۔
دیکھا جائے تو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلے میں الیکشن کمیشن کی آئینی خود مختاری کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ مذکورہ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو آئندہ انتخابات کے لیے الیکشن کی تاریخ دینے کے استحقاق سے محروم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 105‘ 218(3)‘ 219 اور دیگر اہم آرٹیکلز کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت وسیع اختیارات تفویض کیے گئے ہیں اور قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلیاں اور دیگر ادارے الیکشن کمیشن کے اختیارات کم نہیں کر سکتے‘ البتہ ان میں اضافہ کرنے کے لیے راہ کھلی ہے۔ جبکہ مذکورہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے تاریخ تبدیل کرکے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا۔الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 151اور 213سے آرٹیکل 226تک اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 8‘9 اور 10کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کے ان اختیارات کا خود استعمال‘ الیکشن کمیشن کی ساکھ مجروح کرنے جیسا ہے۔ اس سے یہ گمان بھی پیدا ہوا ہے کہ اب الیکشن کے تمام انتظامی معاملات بھی جیسے سپریم کورٹ ہی دیکھے گی۔ ان حالات میں مبصرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حکومتی جماعتوں نے مزاحمتی رویہ اختیار کیا تو اس سے یہ بحران مزید سنگین ہوگا اور ملک میں انتشار میں اضافہ ہوگا۔ بلاشبہ عدالتی فیصلہ حرفِ آخر ہونا چاہیے لیکن اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک جس سیاسی انتشار سے دوچار ہے‘ اس کے پیش نظر معاملات بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر حکومتی جماعتوں کی طرف سے آنے والے ردِ عمل کی روشنی میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کے دوران من پسند انتخابی نتائج کے حصول کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر حملوں کا خدشہ موجود ہے۔
دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے میں الیکشن شیڈول کا خود سے اجرا آئین کے آرٹیکل 218(3) اور 219 کے منافی ہے کیونکہ آئین کی ان دفعات میں الیکشن شیڈول کا حق الیکشن کمیشن کو تفویض کیا گیا ہے۔ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا یہ فیصلہ آئین و قانون کی روح کے مطابق نہیں۔ ماہرین قانون کے مطابق اگر حکومت نے پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر قانون سازی مکمل کر لی تو پھر سپریم کورٹ کا 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ ازخود غیر مؤثر ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں