"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کے اختیارات

الیکشن کمیشن نے انتخابات سے متعلق میڈیا ضابطہ اخلاق 2023ء جاری کردیا ہے جس کے مطابق نظریۂ پاکستان‘ قومی سلامتی اور خود مختاری کے منافی مواد شائع یا نشر نہیں ہوسکتا۔اس ضابطہ اخلاق کے مطابق عدلیہ کی آزادی اور ساکھ کو نقصان پہنچانے والے مواد کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ اشتعال انگیز اور منافرت پھیلانے والی تقاریر اور بیانات کی نشر و اشاعت بھی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ امیدواروں کے ایک دوسرے پر الزامات کی نشر واشاعت سے پہلے دوسرے فریق کا مؤقف لینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ سرکاری خرچ پر امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی تشہیر پر پابندی عائد کی گئی ہے اورامیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو اشتہارات کی رقوم کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوں گی۔ووٹ سیکریسی کا احترام بھی لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
دریں اثناالیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ اور اس میں تبدیلی کے اختیارات سے متعلق قانون سازی کے لیے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو خط لکھ دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے خط میں آئین کی سیکشن 57 (1) اور 58 میں ترمیم کے ذریعے انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور انتخابی پروگرام میں تبدیلی کے لیے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کرنے کی تجویز دی ہے۔ خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار 1976ء کے (The Representation of the People Act) روپا ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس تھا اور 1985ء میں ضیا الحق کے دور میں یہ اختیار الیکشن کمیشن سے لے لیا گیا۔ مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی رِٹ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ڈسکہ الیکشن کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ ڈسکہ ضمنی انتخابات سمیت دیگر اہم کیسز میں الیکشن کمیشن کو قانونی کارروائی سے روک دیا گیا جبکہ ڈسکہ الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن نے بدعنوان افسران کو مثالی سزائیں دی تھیں لیکن بعد ازاں ان افسران کے خلاف انکوائری کو ختم کر دیا گیا اوراس طرح کے فیصلوں سے بیوروکریسی کو یہ پیغام دیا گیا کہ الیکشن کمیشن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ صاف شفاف انتخابات کے لیے جو اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل تھا‘ وہ رفتہ رفتہ ختم کیا گیا جبکہ مضبوط اور بااختیار الیکشن کمیشن ہی ملک میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ بھی موجودہ حالات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے التوا کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں تفصیلی اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ کیس کو 4/3 کے تناسب سے مسترد کر دیا گیا تھااور یہ کہ تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھی اور اس درخواست پر کارروائی شروع کر کے سیاسی سٹیک ہولڈرز کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی۔اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالت پر اعتماد پر اثر پڑتا ہے۔مزید یہ کہ تحریک انصاف کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی‘ اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی‘ سوموٹو کی کارروائی شروع کرنے سے ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے والے سائلین کے حقوق متاثر ہوئے اور اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو اس صورتِ حال سے بچا جا سکتا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ ملک کے ممتاز قانون دان کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہونے سے پہلے انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی حمایت میں شروع ہونے والی وکلا تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کے والد محترم نصر من اللہ پاکستان کے ممتاز بیورو کریٹ تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں صوبہ سرحد اور بلوچستان کے چیف سیکرٹری رہے۔ غالباً ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں زیر عتاب بھی رہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی فیصلے سے سپریم کورٹ کے منقسم ہونے کا تاثر مزید گہرا ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ ایک اہم چارج شیٹ ہے جس سے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی اہمیت مزید کم ہوئی ہے۔ اُدھر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک وکیل کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر تین ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کے لیے 2 ستمبر 2009 ء کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے کوڈ آف کنڈکٹ کی مبینہ خلاف ورزی کو بنیاد بنایا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ چاروں ججوں نے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 3‘ 4‘ 5‘ 6 اور 9 کی خلاف ورزی کی ہے‘ اس لیے انہیں فوری طور پر برطرف کیا جائے۔میرے نزدیک بادی النظر میں اس ریفرنس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک عام شہری کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانا آئین و قانون کی رُو سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
یہاں کچھ ذکر حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے منظور کی گئی قرار داد کا۔ قارئین کو معلوم ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلے کے خلاف ایک قرار داد منظور ہوئی جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی اور آئین و قانون کے مطابق اکثریتی بنچ کے فیصلے کو نافذ العمل قرار دیتی ہے۔ اس قرارداد کے پس منظر میں الیکشن کمیشن کا آٹھ اکتوبر کو قومی انتخابات کرانے کا فیصلہ کار فرما ہے۔ اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ 14مئی کو انتخابات کرانے کا حکم ایوانِ قومی اسمبلی کی نظر میں سیاسی معاملات میں مداخلت اور باعثِ تشویش ہے۔ تاریخ کے بدترین بحران سے نبرد آزما ہونے کے پیش نظر ملکی مفاد میں یہی بہتر ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں نئی اپیل دائر کرے جسے 15رکنی فل کورٹ کے رُوبرو رکھا جائے تاکہ اس آئینی بحران کا خاتمہ ہو۔ حکومت اس ضمن میں پہلے ہی فل کورٹ کی استدعا کر چکی ہے اور اس کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد کرنے پر یقین رکھتی ہے جبکہ خان صاحب بھی اس حوالے سے رضا مندی ظاہر کر چکے ہیں۔
یہ سیاسی عدم استحکام یونہی جاری رہا تو ملک میں معاشی ایمرجنسی کی گھنٹی بج سکتی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے بھی سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عام انتخابات کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے۔ فنڈز کی عدم فراہمی پر وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے کھڑی ہیں۔بظاہر سیاسی و آئینی بحران مزید گہرا ہوتا دکھائی دیتا ہے‘ دیکھتے ہیں کہ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں