"KDC" (space) message & send to 7575

مذاکرات اور چیلنجز

پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو کے رشتۂ ازواج میں منسلک ہونے پر پاکستان میں ان کی سیاست میں انٹری کی سرگوشیاں دم توڑ گئی ہیں۔ انہوں نے انتہائی سادگی کے ساتھ اپنی شادی کی اور اسراف کی عادی اشرافیہ کو آئینہ دکھا دیا۔ فاطمہ بھٹو بین الاقوامی حلقوں میں اپنی ذہانت اور اپنے وژن کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کی پاکستان کی اندرونی سیاست پر گہری نظر رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پرپاکستان کی نمائندگی بھی کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے بعض حلقوں نے 2017ء میں فاطمہ بھٹو سے روابط قائم کیے تھے کہ وہ ملک کی تھرڈ پولیٹکل فورس کے طور پر آ کر سیاست کریں لیکن انہوں نے سندھ کی صورتحال دیکھتے ہوئے اور اپنے خاندان کے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار رکھی‘ غنویٰ بھٹو نے بھی فاطمہ بھٹو کو سیاست سے دور رکھنے میں اہم کردارادا کیا۔ مرتضیٰ بھٹو کے پیروکار بھی آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہوتے رہے اور اب سندھ میں ان کے حامیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال فاطمہ بھٹو کو جو حلقے پاکستان کی سیاست میں لانچ کرنے کے خواہش مند تھے اب ایک امریکی شہری سے فاطمہ بھٹو کی شادی سے ان کی خواہشات دم توڑ گئی ہیں۔ بہرحال فاطمہ بھٹو کو فلاحی کاموں میں دلچسپی لینی چاہیے۔ ملک میں خواتین کے لیے کام کرنے کے بہت سے مواقع ہیں اور پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر تھنک ٹینک تشکیل دے کر پاکستان کے سیاسی‘ انتخابی‘ معاشی اور خارجی امور پر اپنی رائے سے پاکستانی عوام کی رہنمائی کرنی چاہیے۔
یہاں کچھ ذکر سیاست کا اور سیاست کے حالاتِ حاضرہ کی بات کریں تو سب سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری کے لیے رات گئے ان کے گھر پر پولیس کے دھاوے کی بات کی جائے گی۔اس نام نہاد آپریشن کے دوران چودھری صاحبان کے گھر کے دروازے توڑنے کی خبریں‘ تصویریں اور وڈیوز آ چکی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کی گرفتاری کے لیے اینٹی کرپشن پنجاب اور پولیس کی بھاری نفری نے ہفتے کی رات ان کے گھر کا گھیراؤ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پولیس یہ کارروائی ایک ایسے مقدمے میں کررہی تھی جس میں پرویز الٰہی عبوری ضمانت حاصل کر چکے تھے؛ چنانچہ اس کارروائی کی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔اگر چودھری پرویز الٰہی عبوری ضمانت حاصل نہ کر چکے ہوتے تو پھر اور صورت ہوتی اور ممکن ہے کہ اس صورت میں پولیس کے ریڈ کے دوران پرویز الٰہی گرفتاری بھی دے دیتے اور بعد ازاں ضمانت کے لیے عدلیہ سے رجوع کرتے۔ ستمبر 1977ء میں ملک کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو رات گئے 70 کلفٹن کراچی سے گرفتار کرنے پولیس پہنچی تو وہ شب خوابی کے لباس میں ہی پولیس گاڑی میں بیٹھ گئے اور ان کو باقاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے کسی قسم کی بھی مزاحمت نہیں کی تھی‘ اسی طرح بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو نے بھی گرفتاری کے وقت خاموشی سے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کی۔ اب ملک میں نئی روایات کی داغ بیل پڑ گئی ہے کہ ایک طرف تو سیاستدان گرفتاری کے وقت مزاحمت کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور اپنے ورکروں کو ڈھال بنا کر پولیس پر پتھراؤ کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب پولیس کی کارکردگی کا اندازہ کیجئے کہ ایسے مقدمات میں بھی گرفتار کرنے پہنچ جاتی ہے جن میں ملزم عبوری ضمانت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر پر پولیس کے دھاوے کو سیاسی حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے تو اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔
سیاسی انتشار نے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے حکومت اور اپوزیشن کو چاروں صوبوں اور مرکز میں عام انتخابات کے لیے ایک ہی تاریخ پر اتفاق کی خاطر مذاکرات کا مشورہ دے کر اس انتشار کے خاتمے کے لیے راہ سجھائی اور ملک کی سیاسی قیادت نے اس پر بات چیت کا آغاز بھی کر دیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کے دونوں ادوار کامیاب ثابت ہوئے اور منگل دو مئی کے روز دوبارہ مل بیٹھنے پر اتفاق ہوا۔ یہ مذاکراتی عمل حکومت اور پی ٹی آئی قیادت کے وژن‘ تدبر اورسیاسی حکمت عملی کا امتحان ہے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مشورے کو قابلِ عمل بنانے کے لیے اپنی اَنا اور محدود سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے پر رضامند ہو جائیں۔ سابق حکمران جماعت ایک سال پہلے منطقی اور آئینی طریقے کے مطابق حکومتی تبدیلی کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے قبول کر کے پارلیمنٹ میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر اپنا آئینی کردار ادا کرتی اور آئندہ انتخابات میں مکمل تیاری کے بعد انتخابی میدان میں آنے پر اپنی تمام تر ورکروں کی قوت سے انتخابات کرانے کی مہم شروع کر کے قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کر سکتی تھی۔ متحدہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے عمران خان کو سرکاری طور پر شیڈو وزیراعظم کے اختیارات دیے جاتے اوروہ ملک میں جمہوری انداز سے آگے بڑھتے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں بھی ان کے پاس ہوتیں اور وہ ان صوبوں میں مثالی ترقیاتی کام کروا کر عوام کی حمایت اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مگرعمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل نہ کرنے کا صدر ڈاکٹر عارف علوی کا مشورہ بھی نظرانداز کیا اور چودھری پرویز الٰہی کی استدعا کو بھی مستردکرکے نئے بحران کی بنیاد رکھ دی اور خود بھی مقدمات کی زد میں ہیں اور چودھری پرویز الٰہی بھی مقدمات کی زد میں آ گئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے پر ریمارکس دے رہی ہے لیکن اصولاً یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی حقیقی وجہ موجود تھی یا نہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی نشاندہی سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان کی جانب سے بھی کی جا چکی ہے۔ اب دونوں فریقوں کا یہ سیاسی فریضہ ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے نکتے پر اکٹھے ہو جائیں۔حالات ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان کے مشاورتی فیصلے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا سیاسی مستقبل خطرے کی زد میں آ جائے گا۔ اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 232‘ 234 اور سب سے اہم آرٹیکل 5 راستہ دکھانے کے لیے موجود ہے۔حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کے دو ادوار کے بعد اب فریقین کے درمیان کل بروز منگل مذاکرات کا اہم دور متوقع ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دو مئی پی ٹی آئی اور حکومتی مذاکرات کاروں کے لیے ایک مشکل دن ہو گا۔ پی ٹی آئی 14 مئی سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کرانے پر بضد ہے جبکہ حکومت اس مطالبے کو پورا کرنے کے موڈ میں نہیں دکھائی دے رہی۔ گزشتہ ہفتے کے دوران مذاکرات کی دو بیٹھکوں سے فریقین میں قائم ہونے والے بہتر تعلق کار کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کے صدر چودھری پرویز الٰہی کے گھر پر رات گئے چھاپے نے بھی دھچکا دیا ہے۔بہرحال فریقین کے اپنے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کی صورت میں مذاکرات کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ فریقین میں لچک ہی ملک کو اس سیاسی تناؤ سے نکال سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں