"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل

15 مئی کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی صدارت میں منعقدہ خصوصی کور کمانڈر کانفرنس میں فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ52ء کی دفعہ 59 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اب تک جمع کیے گئے ناقابلِ تردید شواہد کی بنیاد پر مسلح افواج ان حملوں کے منصوبہ سازوں‘ اکسانے والوں‘ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں سے بخوبی واقف ہیں اور اس سلسلے میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوششیں بالکل بے سود ہیں۔ اس سے قبل پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے نو مئی کو وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی بنا پر اسے یومِ سیاہ قرار دیا گیا۔ افواجِ پاکستان کی تاریخ میں یہ دن ہر سال یومِ سیاہ کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں ملک کے اندر بے یقینی ختم کرنے کیلئے جلد از جلد قومی اتفاق رائے پیدا کرنے پر بھی زور دیا گیا اور کہا گیا کہ مسلح افواج اس سلسلے میں کوششوں کی حمایت کریں گی۔ کور کمانڈر کانفرنس میں جو فیصلے ہوئے‘ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی طرف بھی سے نہ صرف ان فیصلوں کی توثیق کی گئی بلکہ ان پر عمل کی راہ میں حائل ہونے والی قانونی رکاوٹیں کو دور کر نے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔
قوم چند شرپسندوں کی ملک دشمن کارروائی پر شرمندہ ہے اور احساسِ ذمہ داری کا یہی تقاضا ہے کہ اس کے ذمہ دار تمام کرداروں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ عدلیہ کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن حکومت کی جانب سے عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائرکیا گیا مگریہ ریفرنس حکومت کو مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گا ‘ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے دور میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو انتہائی پیچیدہ‘ مشکل اور ناممکن بنا دیا تھا کیونکہ وہ خود صدر پرویز مشرف کے عتاب میں آ چکے تھے ۔ اس لیے حکومت کو سپریم جوڈیشل کونسل سے کسی سخت کارروائی کی امید نہیں لگانی چاہیے۔
اُدھر پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین سیاسی حقوق کا ضامن ہے‘ ہمیں سیاسی معاملات میں نہیں جانا‘ نہ ہی کچھ سننا چاہتے ہیں‘ امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا۔چیف جسٹس آف پاکستان کی مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی تجویز قابلِ ستائش ہے۔ اُن کی طرف سے یہ تجویز زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے کہ صرف آئین نہیں‘ حالات کو بھی دیکھنا چاہیے۔ ملک میں امن ہوگا تو ہی قانون پر عمل درآمد ہوسکے گا۔ اس موقع پر نو مئی کو وقوع پذیر ہونے والے ناخوشگوار واقعات کی بھی مذمت کی گئی۔ ان واقعات کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی میں نظامِ انصاف کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ احساس کہ صرف آئین نہیں‘ حالات کو بھی دیکھنا ہے‘ خوش آئند ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22مارچ کو ملکی حالات کے پیشِ نظر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عام انتخابات آٹھ اکتوبر تک ملتوی کر دیے تھے۔الیکشن کمیشن کا دونوں صوبوں میں انتخابات کے التوا کا فیصلہ بلاجواز نہیں تھا بلکہ یہ فیصلہ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار اداروں اور نگران حکومت کی جانب سے ملکی حالات پر بریفنگ اور اس تناظر میں الیکشن کے انعقاد کیلئے درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اپنے آئینی اور قانونی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے آئین کے آرٹیکل (3)218 کے تحت دیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے چار اپریل کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت کالعدم قرار دے دیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کے انعقاد کا حکم جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے آٹھ اکتوبر کو انتخابات کروانے کے حکم نامے کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ جاری کرکے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے عدالتی حکم کے خلاف قومی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں وزیرِ اعظم سے کہا گیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کریں۔اس فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے عدلیہ اور پارلیمان کے آمنے سامنے ہونے کے تاثر کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
پیر کے روز چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے دائر نظرثانی اپیل پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست میں بعض نکات غور طلب ہیں‘ اس پر فیصلہ کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالتِ عظمیٰ پنجاب میں انتخابات کے بارے میں اپنے چار اپریل کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور اس فیصلے کو انصاف اور برابری کے مفاد میں واپس لے۔نظر ثانی اپیل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ زمینی حقائق کو درست پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کے انتخابات پہلے ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں قومی اسمبلی کے شفاف انتخابات کے انعقاد پر حرف آ سکتا ہے مزید یہ کہ سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ دینے کی مجاز نہیں۔ پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کے انعقاد کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل (3)218 ‘ 222 اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 58 کو نظر انداز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اختیارات سلب کر لیے گئے تھے۔ اُمید ہے کہ نظرثانی اپیل پر جاری ہونے والے فیصلے سے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوسکیں گے۔
دیکھا جائے تو اقتدار کے لیے جاری رسہ کشی ملک کو بتدریج خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اس رسہ کشی نے ملک کو جو خطرات لاحق کیے ہیں‘وہ باعثِ تشویش ہیں۔شنید ہے کہ پشاور سے سرکاری املاک کے جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں گرفتار ہونے والوں میں بعض افغان باشندے بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں اس کارروائی کے لیے باقاعدہ رقوم دی گئی تھیں۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا حل صرف مذاکرات میں پنہاں ہے۔ منگل کے روز قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اختلافات کو محاذ آرائی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجویز سامنے آئی۔سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی تجویز سے بھی کوئی حل نکل سکتا ہے ۔ اس وقت ملک کو میثاقِ جمہوریت کے ساتھ ساتھ ایک میثاقِ انتخابات کی بھی اشد ضرورت ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ملکی سلامتی کی خاطر تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر سیاسی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی راہ اپنائیں جن میں میثاقِ انتخابات کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا اتفاقِ رائے سے تعین کر لیں۔ اگر سیاسی عدم استحکام یونہی جاری رہا اور اس کے تدارک کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو یہ ملک کو مزید سنگین مسائل سے دوچار کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں