"KDC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی میں’’ تبدیلی‘‘ کی ہوا

سانحہ نو مئی کے بعد تحریک انصاف میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور تحریک انصاف سے وابستہ سیاسی راہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جولائی 2018ء کے انتخابات سے چند ماہ پہلے اور پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔تادم تحریر درجنوں رہنما تحریک انصاف سے لاتعلقی اختیار کر کے عمران خان کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں کہ انہوں نے عسکری تنصیبات پر حملے کی بر وقت مذمت نہ کر کے انہیں دلبرداشتہ کیا۔جن رہنماؤں نے تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے وہ بھی سانحہ نو مئی سے بری الزمہ نہیں‘ ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔ محض جماعت سے لاتعلقی سے ان کی سرگرمیوں پر پردہ نہیں پڑ سکتا۔ اگر سانحہ نو مئی کے ملزموں نے اسی طرز پر بیان دینے شروع کر دیے کہ انہوں نے پارٹی قیادت کے کہنے پر عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچایا تو کیا حکومت ان کو معاف کر دے گی؟
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے درست ریمارکس دیے ہیں کہ نو مئی سیاہ ترین دن تھا اور شرپسند سخت سزا سے بچ نہ پائیں گے۔ ان کی جرأت مندانہ پالیسی سے پنجاب شرپسندی کی مذموم حرکت سے محفوظ ہو گیا ہے۔ سانحہ نو مئی کے بعد بھی عمران خان عسکری قیادت پر تنقید کرتے رہے ہیں اور نو مئی کے حملے کا الزام بھی عمران خان نے قومی اداروں پر لگا دیا‘ جس پر عسکری قیادت نے اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہوئے بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر مذمت کی اور سانحہ نو مئی کے بعد شرپسندوں کے خلاف آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59 کے تحت مقدمات درج کر دیے گئے ہیں اور آرمی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں اور ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق نو مئی کو ہوئی ہنگامہ آرائی پر ملک بھر میں 449 مقدمات درج ہوئے، جن میں 88 انسداد دہشت گردی ایکٹ جبکہ 411 دیگر قوانین کے تحت درج کے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں تین ہزار 946 افراد کو حراست میں لیا گیا جس میں پنجاب میں دو ہزار 588 اور خیبرپختونخوا میں 11 سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔ وفاقی حکومت کا یہ اعلان انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے کہ جن شر پسندوں نے سویلین مقامات پر عمارتوں کو نقصان پہنچایا ان پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے جبکہ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں اور عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والے شرپسندوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ نو مئی کو سویلین اور فوجی اہمیت کی عمارات اور اداروں پر حملوں کو پاکستانی عوام امریکہ میں ہونے والے نو ستمبر 2001ء کے واقعے سے بھی زیادہ ہولناک قرار دیتے ہیں۔ پوری قوم ان مجرموں کے خلاف مقدمات کا نتیجہ دیکھنے کی منتظر ہے۔ عدالتوں کو بھی ان مجرموں سے نرم رویہ رکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والے شرپسندوں کی شناخت ہو چکی ہے۔ ان میں سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ مرحوم کی نواسی اور بین الاقوامی فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں جو ماہر معاشیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کی صاحبزادی ہیں۔ ان کے خلاف بھی آرمی ایکٹ 52 کے تحت مقدمہ چلائے جانے کا امکان ہے‘ لہٰذا آرمی ایکٹ کی مزید تشریح اس لیے کی جا رہی ہے کہ عوام کو احساس ہو کہ اس ایکٹ کی اصل روح کیا ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے جبکہ یہ فوجی عدالت جی ایچ کیو ایجوٹنٹ برانچ کی زیرنگرانی ہوتی ہے۔ اس عدالت کا حصہ ایک حاضر سروس عموماً لیفٹیننٹ کرنل رینک فوجی آفیسر ہوتا ہے استعاثہ کے وکیل بھی فوجی آفیسرز ہوتے ہیں۔ ایجوٹنٹ جنرل برانچ میں قانون کی ڈگری رکھنے والے آفیسر ز ان عدالتی کارروائیوں کا حصہ بنتے ہیں۔یہاں ملزمان کو وکیل کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی آفیسران ان کی وکالت کرتے ہیں۔ یہاں ہونے والی کارروائی کے بعد ملزم اپیل کا حق رکھتا ہے‘ تاہم فوجی عدالتوں کے بارے میں عام رائے یہی پائی جاتی ہے کہ یہ عدالتیں اگرچہ سپیڈی جسٹس کے نظام کے تحت چلتی ہیں تاہم ملزم کو اپنے کیس کی پیروی کی مکمل آزادی حاصل ہے اور بعد ازاں ملزم کو اعلیٰ عدالت میں اپیل کرنے کا بھی موقع حاصل ہوتا ہے۔ جو ملزمان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ کی زد میں آ چکے ہیں ان کو ضمانت پر رہائی کا امکان نہیں ہوتا‘ لہٰذا ان کو عبرتناک سزا کا تصور عام ہے۔
دوسری جانب اعلیٰ عدالتی شخصیات سے منسلک آڈیو لیکس کی تحقیق کی غرض سے تشکیل دیے گئے عدالتی کمیشن‘ جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے‘کی تشکیل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا ہے جس میں جوڈیشل کمیشن کو کام سے روک دیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے اس کمیشن نے وفاقی حکومت سے اب تک سامنے آنے والی آڈیوز اور ان کا مکمل مصدقہ متن طلب کرتے ہوئے متعلقہ افراد کو نوٹسز جاری کر دیے تھے۔ جوڈیشل کمیشن نے کہا تھا کہ کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو اِن کیمرہ کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیا جائے گا۔ کمیشن نے نوٹس بھیجنے اور تعاون نہ کرنے پر مطلوب افراد کو سمن جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شفافیت کے لیے تحقیقاتی کارروائی بند کمرے کی بجائے کھلے عام کرنے کا فیصلہ کیا اور کارروائی سے قبل اس حوالے سے قومی میڈیا پر اشتہارات جاری کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔جوڈیشل کمیشن کی حتمی رپورٹ سے ایسے چشم کشا حقائق سامنے آنے کی توقع تھی جن سے ماضی کے فیصلوں پر بھی گہرا اثرنے کا امکان تھا اور سمجھا جارہا تھا کہ اس کے دُور رس نتائج ہوسکتے تھے۔ جوڈیشل کمیشن کے لیے آسان راستہ یوں تھا کہ کسی نے آج تک لیک ہونے والی آڈیوز کی تردید نہیں کی تھی۔لگ رہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی جوں جوں آگے بڑھتی جائے گی چشم کشا حالات سامنے آتے رہیں گے۔ جوڈیشل کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ضروری بھی تھی تاکہ جو بااثر شخصیات کے فیصلوں کے حوالے سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات ہیں‘ وہ دور ہو جائیں۔جوڈیشل کمیشن کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں میں جو اعتراضات عائد کئے گئے بظاہر وہ بھی کمزور نوعیت کے تھے۔کیونکہ یہ واضح ہے کہ وفاقی حکومت کو انکوائری کمیشن بنانے کا مکمل اختیار ہے اور یہ جوڈیشل کمیشن ضروری بھی تھا کہ عوام کے ذہنوں میں سوال اُٹھ رہے تھے کہ ججز کا کنڈکٹ ایسا ہے کہ وہ آئینی اداروں کا احتساب تو کرتے ہیں لیکن ججز کے اپنے احتساب کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے اور حکومت نے جن آٹھ ججز کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوائے ان پر بھی کارروائی نہیں ہوسکی کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس تھے کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا اختیار اُن کو حاصل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں