"KDC" (space) message & send to 7575

سانحہ نو مئی، بڑی کارروائیوں کا مرحلہ

سانحہ نو مئی کی بڑے پیمانے پر تحقیقات ہو رہی ہیں‘ اس کے نتیجہ میں نو مئی کے ماسٹر مائنڈز پر گرفت مضبوط کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ بڑی بڑی اہم شخصیات آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفت میں آسکتی ہیں۔ ایسی خبریں ہیں کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اس معاملے کو براہ راست دیکھ رہے ہیں۔ آرمی چیف نے واضح کر دیا ہے کہ بگاڑ پیدا کرنے اور فرضی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پس منظر میں پناہ لینے والوں کی تمام کوششیں بے سود ہیں‘ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانون حرکت میں آ چکا ہے۔ نو مئی کے تناظر میں فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ کو گہری نظروں سے پڑھا جائے تو یہ شرپسندوں کے سرغنہ کے ساتھ ساتھ غیرملکی این جی اوز‘ ملکی این جی اوز‘ سیاستدانوں اور اداروں میں بیٹھے سہولت کاروں کو واضح پیغام ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ریمارکس دیے ہیں کہ نومئی کے بعد حالات تبدیل ہو گئے ہیں پنجاب الیکشن کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے اصول طے کر دیے کہ کن حالات میں الیکشن ملتوی ہو سکتے ہیں اور کن میں نہیں اور یہ خوش آئند ہے کہ حکومت اور اداروں نے قانون کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے جاری اعلامیے کے مطابق فارمیشن کمانڈ کانفرنس کے شرکا نے یوم سیاہ‘ سانحہ نو مئی کے واقعات کی سخت ترین مذمت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وقت آ گیا ہے کہ ان کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔اعلامیے کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ ملک دشمن عناصر اور ان کے حامی‘ جعلی اور بے بنیاد خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے معاشرتی تفرقہ اور انتشار پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں‘ قوم کے بھرپور تعاون سے تمام تر ناپاک عزائم کو ناکام بنایا جائے گا۔آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ بگاڑ پیدا کرنے کی اور فرضی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے پناہ لینے کی تمام تر کوششیں بے سود ہیں۔ کثرت سے جمع کیے گئے ناقابلِ تردید شواہد کونہ جھٹلایا اور نہ ہی بگاڑا جا سکتا ہے۔اعلامیے کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ مخالف قوتوں کے ناپاک عزائم کو مکمل طور پر ناکام بنانے کی راہ میں کسی بھی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور ابہام پیدا کرنے کی کوششوں کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔آرمی کی ہائی کمانڈ کی جانب سے اس قسم کی سخت زبان بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ اسی طرز کا بیان 23 مارچ 1971ء کو صدر یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن اور ان کی جماعت کو دیا تھا اور ساتھ ہی شیخ مجیب الرحمن کے سہولت کاروں‘ بھارت اور روس کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا اس کی عسکری اداروں کی جانب سے مذمت کی گئی اور وفاقی حکومت سے کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے مگر وفاقی حکومت نے مصلحت کے تحت اس سفارش کو نظرانداز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا جس کا خان صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا‘ مگر فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں جو پیغام دیا گیا وہ بہت واضح ہے کہ نہ تو ہم بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے۔یہ دو ٹوک پیغام واضح کرتا ہے کہ فوج نہ تو نو مئی کے سیاہ دن کے واقعات کو بھولے گی اور نہ وہ منصوبہ بندی میں ملوث کسی بھی شخص کو معاف کرے گی خواہ وہ منصوبہ بندی کرنے والا‘ حوصلہ افزائی کرنے والا یا حملہ کرنے والا ہو اور نو مئی کے حملوں میں ملوث افراد کو بچانے کی کوششوں کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اب قانون کی گرفت ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف سخت کرنے کا وقت ہے جنہوں نے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پر مبنی اور سیاسی بغاوت کی تاکہ وہ ملک میں افراتفری کی تخلیق کرنے کے اپنے مذموم عزائم حاصل کر سکیں۔ اب چونکہ ملٹری قوانین کے مطابق سانحہ نو مئی کے ملزموں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو انکوائری کا دائرہ کار اُن غیر سرکاری تنظیموں تک بھی پھیلا نا چاہیے جن میں سابق سفارت کار وں‘ بیورو کریٹس اور سابق عسکری عہدیداروں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اور سرکاری عہدیداروں کے جو رشتہ دار سیاسی جلسوں کی رونق بڑھانے جایا کرتے تھے ان کی بھی چھان بین ہونی چاہیے۔
دوسری جانب انتخابات کا عملی طریقہ کار الیکشن کمیشن نے واضح کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ووٹرز کی کل تعداد 12 کروڑ 60 لاکھ ہے‘ جن میں مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ 88 لاکھ جبکہ خواتین ووٹرز پانچ کروڑ 80 لاکھ ہیں۔ پنجاب میں ووٹرز کی کل تعداد سات کروڑ20 لاکھ ہے‘ سندھ میں دو کروڑ 65 لاکھ اور بلوچستان میں 52 لاکھ60 ہزار ہے۔ ملک بھر میں اٹھارہ سے پچیس سال کے ووٹرز کی تعداد دو کروڑ 35 لاکھ ہے ‘ 26 سے 35سال کے ووٹرز کی تعداد تین کروڑ 27لاکھ جبکہ 36 تا 45 سال کے ووٹرز کی تعداد دو کروڑ 78 لاکھ ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ووٹرز کی تعداد سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے قومی انتخابات میں نوجوان اور درمیانی عمر کے ووٹرز ملک میں ووٹرز کی مجموعی تعداد کے 70 فیصد کے قریب ہوں گے اور انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے‘ اس لیے یہ دیکھنا اہم ہے کہ نوجوان اور درمیانی عمر کے ووٹرز کس پلڑے میں اپنی حمایت کا وزن ڈالتے ہیں۔
ملک کے سیاسی ماحول میں جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت کو ایک اہم واقعہ کے طور پر لیا جارہا ہے ۔ اس جماعت کی اکثریت انہی ارکان پر مشتمل ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ساڑھے تین سال تک اہم عہدوں پر فائز رہے اور ان کی موجودگی میں فارن فنڈنگ کیس‘ توشہ خانہ کیس اور عثمان بزدار دور میں اعلیٰ بیورو کریسی کے تبادلوں پر کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن ہوتی رہی اور یہی افراد ان کے لیے دفاعی قوت بنے ہوئے تھے؛چنانچہ ملک کے مستقبل کی حکمت عملی مرتب کرنے والے اداروں کو حالات و واقعات پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔عام تاثر یہ ہے کہ جہانگیر ترین کی پارٹی کی حکمت عملی بھی مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی جیسی ہی ہو گی‘ جس کی پشت پر مبینہ طور پر رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکونز تھے‘ جو بوقتِ ضرورت کسی سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے یا ضم ہو سکتی ہے۔ قومی انتخابات سے پیشر دیکھنا یہ ہے کہ جہانگیر ترین یہ پارٹی خود چلاتے ہیں یا ضرورت پڑنے پر کسی اور پارٹی کو اپنی پارٹی کی خدمات پیش کر دیں گے۔ اصولی طور پر جہانگیر ترین کو استحکام پاکستان پارٹی کو ایک قابلِ ذکر سیاسی قوت بنانے کے لیے نوجوان قیادت کو آگے لانا ہو گا اور جو تحریک انصاف کے120 کے لگ بھگ ارکان ِاسمبلی وقتی مفادات کے تحت شامل ہوئے ہیں ان کو آئندہ انتخابات میں ٹکٹ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔سابق دورِ حکومت میں عوام ان کی تین سالہ گورننس سے بخوبی واقف ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں