"KDC" (space) message & send to 7575

نگران وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ

عالمی مالیاتی فنڈ نے مالی سال 2023-24ء کے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کا موقع گنوا دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار آئی ایم ایف کی نمائندہ برائے پاکستان نے اگلے روز کیا جبکہ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ''موڈیز‘‘ نے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس عالمی مالیاتی فنڈ کو 6.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے تحت 2.2 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے پر قائل کرنے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ موڈیزنے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے میں ناکام رہا تودیوالیہ ہو سکتا ہے۔پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے دو ہفتے رہ گئے ہیں‘ کیونکہ بیل آؤٹ پیکیج30 جون کو ختم ہو جائے گا‘ اور اس کی ناکامی کے معیشت کے لیے شدید مضمر اثرات ہوسکتے ہیں۔ معاشی امور کے سرکردہ امریکی خبر رساں ادارے ''بلومبرگ‘‘ کا بھی یہی کہنا ہے کہ خطرات بڑھ رہے ہیں کہ شاید پاکستان آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل نہ کرسکے ‘جس کا اختتام جون میں ہو رہا ہے۔ ان حالات کے نہ صرف ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ آنے والے انتخابات کے شیڈول کو بھی مشکوک بنا دیتے ہیں۔ اس سنگین صورتحال میں ایک اور باعث تشویش معاملہ شیل پٹرولیم کا پاکستان میں اپنے تمام حصص فروخت کرنے کا فیصلہ ہے جس سے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
ایک طرف معیشت کے یہ حالات ہیں اور دوسری جانب پاکستان کا جمہوری نظام آخری سسکیاں لے رہا ہے۔ کراچی کی میئر شپ میں مرتضیٰ وہاب اگرچہ سادہ اکثریت سے میئر منتخب ہو گئے ہیں اور انہوں نے 173 ووٹ حاصل کرکے برتری تو حاصل کر لی ہے ‘جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان نے 160ووٹ حاصل کئے ہیں۔تاہم تحریک انصاف کے 30چیئرمینوں کو گھروں میں نظر بند کر کے جس طرح جماعت اسلامی کے امیدوار کے خلاف پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کی کامیابی کا راستہ ہموار کیا گیا اس پر جمہوری ذہن رکھنے والے اور ملک میں خالص جمہوریت کے پروان چڑھنے کا خواب دیکھنے والے دم بخود ہیں۔پھرجیسا کہ اس طرح کے انتخابات کے نتیجے میں ہوتا ہے‘ دونوں جماعتوں کے ارکان کا تصادم ہوا‘ اور اس سے آئندہ عام انتخابات کے کشیدہ حالات کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پاکستان جمہوری ملک ہے لیکن الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کی روایت موجود نہیں ‘کیونکہ کامیابی کیلئے جو خفیہ حربے اور انتخابی نقب زنی کی جاتی ہے ایسی نقب زنی دنیا کے کسی جمہوری ملک میں نہیں ہوتی؛چنانچہ وہاں انتخابات فسادات پر منتج نہیں ہوتے اور طرفین اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نتائج کو تسلیم کرلیتے ہیں ۔اس کے باوجود کہیں کہیں دھاندلی کی خبریں بھی آتی ہیں جیساکہ بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سافٹ ویئر کی تبدیلی سے نتائج تبدیل کرنے کے حوالے سے ماضی میں شکایات سامنے آئیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ مخصوص پولنگ سٹیشنز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایک چپ لگا دی گئی جس سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے گئے۔
ادھرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹر کے اندراج ‘ اخراج اور درستگی کی آخری تاریخ مقرر کر دی ہے جو کہ 13جولائی ہے ‘جبکہ نگران وزیراعظم کے تقرر کیلئے مقتدرہ کے حلقوں سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔ نگران وزیراعظم کیلئے اتحادی جماعتوں سے بھی مشاورت جاری ہے اور چونکہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ہیں لہٰذا معاملہ قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے فوری طور پر حل ہو جانے کی امید ہے اور آئین کے آرٹیکل 224 اور 224اے کو بروئے کار لانے کی نوبت نہیں آئے گی۔نگران وزیراعظم کا تقرر کرتے ہوئے رسمی طور پر چیف الیکشن کمشنر کی رضامندی حاصل کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں کیونکہ نگران وزیراعظم نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت کرنی ہے اور چاروں صوبوں کی نگران حکومتوں کی بھی الیکشن کے حوالے سے مانیٹرنگ کرنی ہوتی ہے۔ جونہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دیاچاروں نگران حکومتیں اور وفاقی نگران حکومت آئین کے آرٹیکل 220اور 222کے تحت الیکشن کمیشن کے ماتحت ہو جائیں گی۔ نگران وزیراعظم کا بڑا ہی محدود کردار ہوگا اور اگر حالات ناگزیر ہو گئے‘جیسا کہ معاشی ابتری برقرار رہی یا دوست ممالک نے معاشی حالات بہتر بنانے کیلئے نگران سیٹ اپ میں توسیع کی خواہش ظاہر کی تو نگران حکومت آرٹیکل 239 کے تحت ہنگامی حالت بھی نافذ کر سکتی ہے۔آئین کے تحت صدر مملکت ہنگامی حالت نافذ کرنے کے مجاز ہیں۔ ایسے حالات اگر ملک کو درپیش آئے تو انتخابات تین ماہ یا اس سے زائد عرصہ تک مؤخر بھی ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک سانحہ9مئی کی بات ہے تو اس سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ‘ اس قومی سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔ پنجاب حکومت نے 9مئی کے ملزموں کا ٹرائل کرنے کیلئے انتظامات مکمل کر لئے ہیں اور جیل کے اندر ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا کی حکومت بھی ملزموں کے ٹرائل جیل میں ہی کرائے گی۔ان ملزموں کی شناخت کیلئے اور گرفتار کرنے کیلئے اخبارات میں مسلسل اشتہار دیے جا رہے ہیں۔پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف بھی کئی سنگین نوعیت کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ‘ الیکشن کمیشن کو بھی ان کے کیس میں قانون کے مطابق فیصلہ دینا چاہیے‘ وہ اگر چاہیں تو ان فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ فیصلوں کے خلاف اپیل کی قانون اجازت دیتا ہے۔
جہاں تک میئر کراچی کے انتخابات کا تعلق ہے توسندھ ہائیکورٹ نے ان انتخاب کے نتائج میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کی درخواست کے فیصلے سے مشروط کردیے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ میئر کراچی کے انتخاب کے نتائج جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کی درخواست پر ہوئے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ جمعرات کو جاری کئے گئے تحریری حکم نامے میں عدالت نے قرار دیا کہ بلدیاتی ترمیمی ایکٹ کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست منظور ہوئی تو براہ راست میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا اور میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب پرانے قانون کے تحت دوبارہ ہوگا۔ سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2023ء میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص میئر‘ ڈپٹی میئر‘ چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدے کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے‘ لیکن عہدہ سنبھالنے کے چھ ماہ کے اندر اسے متعلقہ کونسل سے بطور رکن منتخب ہونا ہوگا۔اس کے خلاف حافظ نعیم الرحمن نے سات جون کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آئین میں ترمیم کو غیر قانونی‘ قانونی اختیار اور قانونی اثر کے بغیر قرار دیا جائے۔انہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ زیر بحث ترمیم اس وجہ سے غیر قانونی ہے کہ نمائندہ جمہوریت ان افراد کو ایگزیکٹو اتھارٹی دینے پر مبنی ہے جو منتخب نمائندے ہوں۔ میئر کے الیکشن میں 30سے زائد یونین کونسل کے چیئرمینوں کا غائب ہونا بھی میئر کے انتخاب کو سوالیہ نشان بنا دیتا ہے اور تحریک انصاف کے اندر فارورڈ بلاک بنا کر نام نہاد پارلیمانی لیڈر کا تقرر بھی حیران کن ہے ۔ سندھ ہائیکورٹ کو انٹرا فلور کراسنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ تمام انتخابات کے عمل پر نافذ ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں